آج کی اعداد و شمار کی دنیا میں لوگوں کی معاشی صورت حال کی درجہ بندی کرنے کے سلسلے میں کئی قسم کے اشاریے (Index) استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کا تخمینہ لگا کر یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ فلاں ملک کے باشندوں کی معاشی اور معاشرتی حالت کس درجے میں ہے اور اس طرح ایک ملک کا دوسرے ممالک سے موازنہ بھی کیا جاتا ہے اس میں سب سے اہم اوسط فی کس آمدنی (GDP percapita) ہے اور آپ پاکستان کی حالت کا اندازہ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی اوسط فی کس آمدنی 70 ہزار سے لے کر ایک لاکھ ڈالر تک ہے اور پاکستان میں یہ فی کس آمدنی 1600 ڈالر ہے۔
موجودہ دور میں بجلی بھی ایک بنیادی ضرورت بن چکی ہے چاہے گھریلو زندگی ہو یا کاروباری اور تجارتی یا پھر کاشتکاری کا شعبہ ہر ہر جگہ بجلی کا استعمال ہے چناں چہ کسی ملک کے لوگوں کا معیار زندگی جانچنے کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاتا ہے کہ فی کس بجلی کا استعمال کتنا ہے ترقی یافتہ ممالک میں اس کی شرح بہت زیادہ ہے یعنی تقریباً 1500 واٹ ہے جب کہ وہ ممالک جن کی معیشت تیزی سے ترقی کررہی ہے وہاں یہ مقدار 400 سے 600 واٹ تک پہنچتی ہے جب کہ ہمارے جیسے ممالک مثلاً انڈیا میں 87 واٹ، ایران 300 واٹ، بنگلا دیش 37 واٹ، سری لنکا 56 واٹ اور پاکستان میں فی کس بجلی کا استعمال 46 واٹ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے استعمال میں کمی کی مختلف وجوہات ہیں۔ مثلاً لوڈشیڈنگ، اووربلنگ، بجلی کی اونچی قیمتیں اور بجلی کی تقسیم و ترسیل میں خامیاں اور کمزوریاں اہم وجوہات ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی تقسیم کا نظام بڑا پرانا ہے اول تو بجلی کی پیداوار کم ہے اس کے بعد اس کا کچھ حصہ چوری کرلیا جاتا ہے اور کچھ حصہ دوران تقسیم و ترسیل ضائع ہو جاتا ہے اور اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ بجلی کی چوری اور دوران تقسیم جو ضیاع ہوتا ہے اس کا نقصان اُن صارفین سے پورا کیا جاتا ہے جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں۔ ستمبر کے مہینے میں نیپرا نے اس مد میں بجلی کے فی یونٹ میں 0.48 روپے اضافہ کیا، وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس خان لغاری نے قومی اسمبلی میں اس کا اعتراف کیا کہ بجلی کی چوری کا بوجھ میٹر والے برداشت کرتے ہیں۔ بجلی کی چوری اور اووربلنگ بڑے مسائل ہیں اوور بلنگ کو روکنے کے لیے قانون سازی کا عمل جاری ہے۔ تجویز یہ ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازم جو اووربلنگ میں ملوث پائے جائیں گے اُن کے خلاف ایف آئی آر کٹے گی اور ان کو گرفتار کیا جائے گا لیکن کیا یہ عملی طور پر اتنا آسان ہے جہاں بجلی کی کمپنیاں اپنے ملازمین کو ٹارگٹ دیتی ہوں کہ اتنا ریونیو اکٹھا کرنا ہے وہ ایسی قانون سازی ہونے دیں گی۔
بجلی کے بلوں کے ستائے ہوئے صارفین پر نیپرا نے ایک اور تازیانہ رسید کردیا ہے اپنے ازخود لیے ہوئے نوٹس میں نیپرا نے صارفین سے 115 ارب روپے مزید وصول کرنے کی منظوری دے دی ہے اس میں 60 ارب روپے خیبرپختونخوا حکومت کے ہائیڈل پاور کے منافع کی مد میں ہیں، جب کہ 55 ارب روپے مختلف تقسیم کار کمپنیوں کو پلانٹ چلانے کے اخراجات اور نئی سرمایہ کاری کی مد میں ادا کیے جائیں گے۔ اس طرح تقریباً 1.50 روپے فی یونٹ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ اسی طرح نیپرا نے کے الیکٹرک کے لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کردیا ہے اور اب فی یونٹ کی اوسط قیمت 12.77 روپے ہوگئی ہے اور ان نرخوں کی منظوری سات سال کے لیے ہے۔ اس سلسلے میں تاجروں اور عوامی نمائندوں نے کے الیکٹرک کے خلاف جو ثبوت پیش کیے تھے ان سب کو مسترد کردیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ نیپرا میں بجلی کی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں جو تمام دلائل، وجوہات اور ثبوت رد کرتے ہوئے صرف ایک کام کرتے ہیں اور وہ ہے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ۔
پاکستان میں بجلی کے نرخ پہلے ہی خطے کے دوسرے ممالک سے زیادہ ہیں مثلاً انڈیا میں بجلی کے نرخ 11.3 سینٹ فی کلو واٹ، سری لنکا میں 9.2 سینٹ فی کلو واٹ، بنگلا دیش میں 7.3 سینٹ فی کلو واٹ اور پاکستان میں 14.4 سینٹ فی کلو واٹ۔ بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے کاروباری لاگت بے انتہا بڑھ چکی ہے اس کی وجہ سے پاکستان برآمدات کے میدان میں پیچھے چلا گیا ہے۔ برآمدات کے علاوہ مقامی طور پر تیار ہونے والی اشیا باہر سے آنے والی اشیا کے مقابلے میں مہنگی ہوگئی ہیں۔ اس وجہ سے صنعتیں بند ہورہی ہیں، بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ وفاقی حکومت جو اربوں روپے مختلف سیاسی پیکیجز پر خرچ کررہی ہے وفاقی بجٹ میں کسان پیکیج پر 1000 ارب روپے رکھے گئے ہیں 114 ارب روپے کی رقم نکالنا مشکل نہیں ہے حکومت کو چاہیے کہ یہ رقم وہ خود فراہم کرے اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کو روکے جو پہلے ہی بہت زیادہ ہیں۔