ڈاکٹر نثار احمد نثار
بزمِ یاران سخن کراچی کے زیر اہتمام ایم پی اے ہائوس کراچی میں 25 اکتوبر 2017 کو ممتاز شاعر‘ نظامت کار‘ نقاد اور ٹی وی اینکر سلمان صدیقی کے دوسرے شعری مجموعے ’’بازگشت‘‘ کی تعارفی تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدارت پروفیسر جاذب قریشی نے کی۔ مسلم شمیم ایڈووکیٹ مہمان خصوصی تھے۔ اختر سعیدی اور حجاب عباسی نے سلمان صدیقی کو منظوم خراج تحسین پیش کیا (ان دونوں حضرات نے اپنے اشعار میں سلمان صدیقی کی تمام جہتوں کا احاطہ کیا تھا۔) ناصر شمسی‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ اکرم کنجاہی‘ ڈاکٹر اکرام الحق شوق اور ڈاکٹر نزہت عباسی مقررین میں شامل تھے جب کہ راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ نثار احمد نثار نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 1974ء میں بزمِ یارانِ سخن کراچی قائم کی تھی‘ خدا کا شکر ہے کہ آج یہ ادارہ ادبی و علمی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے۔ انہوں نے تمام شرکائے محفل کو خوش آمدید کہا۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ سلمان صدیقی کے اسلوبِ بیاں میں توانائی ہے‘ ان کے کلام میں برجستگی ہے‘ گہرائی ہے‘ گیرائی ہے ان کی شاعری خوب صورت الفاظ کی آئنہ دار ہے‘ ان کے دونوں شعری مجموعے سردست اور بازگشت ان کی صلاحیتوں کے غماض ہیں‘ ان کے یہاں عشق و محبت کے مضامین بھی ملتے ہیں اور معاشرتی ناہمواریوں کا ذکر بھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی نظمیں ہیت اور موضوع کے اعتبار سے استعاراتی جہت کو منکشف کر رہی ہیں انہیں رعایتِ لفظی کا استعمال آتا ہے۔ اکرم کنجاہی نے کہا کہ سلمان صدیقی کا ایک حوالہ نظامت کاری ہے دوسرا حوالہ شاعری اور تیسرا حوالہ یہ ہے کہ وہ ٹی وی اینکر بھی ہیں۔ انہوں نے تینوں شعبوں میں اپنی شناخت بنائی ہے ان کی شاعری روایت اور جدت کے ہیں یہ معاشرے سے جڑے ہوئے ہیں ان کے اشعار میں سوز و گداز پایا جاتا ہے۔ انہوں نے انسانی رویوں کو برتا ہے ان کی نظمیں پوری ابلاغ کے ساتھ ہمارے سامنے آئی ہیں خاص طور پر ان کی ’’شہرِ آشوب‘‘ نامی نظم ہمارے ذہنوں کو تازگی ٔ فکر مہیا کر رہی ہے۔ انہوں نے بحیثیت نثر نگار کچھ مضامین لکھے ہیں جو کہ مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں ان کی تحریریں پڑھ کر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے اندر کوئی ادیب چھپا بیٹھا ہے جو جلد ہی پوری آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہوگا۔
ڈاکٹر رخسانہ صبا نے کہا کہ سلمان صدیقی نے افسانہ نگاری سے ادبی دنیا میں قدم رکھا ہے اس کے بعد وہ شاعری کی طرف آئے اب صورت حال یہ ہے کہ یہ ایک مستند شاعر بن چکے ہیں لیکن یہ اب افسانے نہیں لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی شاعری میں ان کے دلی جذبات سے لے کر ہماری سماجی اور سیاسی زندگی کے سارے رویے نمایاں ہیں ہمارے معاشرے کے تکلیف دہ پہلو بھی ان کے یہاں نظر آتے ہیں اور سہانے خواب بھی کہ ہر شخص بہتر مستقبل کا خواہش مند ہے۔ ناصر شمسی نے کہا کہ سلمان صدیقی محبتوں کے سفیر ہیں آج کی تقریب میری بات کی گواہی دے رہی ہے کہ آج ان کی محبت میں کراچی کی اہم شخصیات یہاں موجود ہیں ان کی شاعری موسمِ خزاں میں فصلِ بہار ہے۔ انہوں نے تیرگی میں چراغ جلائے ہیں ان کی نظامت کاری کا جواب نہیں کہ کراچی کے بیشتر مشاعروں میں ان کی نظامت ہوتی ہے۔ انہوں نے بحیثیت ٹی وی اینکر متعدد انٹرویوز کیے جو تاریخ کا حصہ ہیں اور ہمارے لیے مشعل راہ ہیں کہ ان کی گفتگو سن کر فکر و آگہی کے نئے باب کھلتے ہیں‘ ان کی غزلوںمیں تمام شعری محاسن نظر آتے ہیں ان کی نظمیں زندگی سے بھرپور ہیں انہوں نے ظالم سماج کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور سلمان صدیقی کے فن و شخصیت کے بارے میں کہا کہ وہ سلمان صدیقی کو کئی حوالوں سے جانتے ہیں وہ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں‘ شاعر ہیں‘ افسانہ نگار‘ نظامت کار ہیں اور ٹی وی اینکر ہیں۔ وہ کراچی کی متعدد علمی و ادبی تنظیموںسے وابستہ ہیں اس تناظر میں وہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں مصروف ہیں ان کی ادبی تنظیم ’’دراک‘‘ ایک فعال ادارہ ہے جس کی سو سے زیادہ نشستیں ہوچکی ہیں۔ سلمان صدیقی ایک مجلسی آدمی ہے اس لیے وہ کراچی کے ادبی منظر نامے میں نمایاں ہے انہوں نے مزید کہا کہ سلمان کی نظموں میں زندگی رواں دواں ہے ان کی غزلوں میں غنائیت ہے‘ میرے نزدیک یہ کراچی کے اہم شعرا میں شامل ہیں انہوں نے سلمان صدیقی کو مبارک باد پیش کی کہ ان کی کتاب کی تقریب ایک یادگار تقریب ہے۔
مہمان خصوصی مسلم شمیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ سلمان صدیقی نثر نگار بھی ہیں اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نیک سیرت انسان بھی ہیں یہ علم دوست شخصیت ہیں یہ اپنے ہم عصر قلم کاروں میں کئی حوالوں سے ممتاز و معتبر ہیں۔ انہوں نے طویل جدوجہد کے بعد ادبی دنیا میں اپنا مقام بنایا ہے انہوں نے مزید کہا کہ اردو ایک بین الاقوامی زبان بن چکی ہی اس کی افادیت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں اس زبان کا کسی علاقائی زبان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے یہ پاکستان کی قومی زبان ہے اس کا تشخص برقرار رہے گا۔ راشد نور نے دورانِ نظامت سلمان صدیقی کے بارے میں بہت خوب صورت جملے کہے ان کا کہنا تھا کہ سلمان صدیقی شاعروں کے ہجوم میں کھوئے نہیں‘ انہوں نے کسی کی نقالی نہیں کی بلکہ اپنا لب و لہجہ سب سے منفرد رکھا ہے ان کا انداز بیاں انہیں دوسروں سے منفرد بناتا ہے۔ یہ مشاعروں میں ڈھیروں داد پاتے ہیں‘ نظامت کاری میں چھوٹے چھوٹے طنز و مزاح کے جملوں کے ذریعے سامعین کو تازہ دم رکھتے ہیں یہ کئی عالمی مشاعروں کی نظامت کر چکے ہیں۔ میٹرو ٹی وی چینل پر بحیثیت ٹی وی اینکر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں ان کا پروگرام ’’سلسلہ تکلم کا‘‘ بہت مشہور ہے۔ انہوں نی ادبی دنیا کے ممتاز و معروف ادیبوں اور شاعروں سے انٹرویوز کیے ہیں جو کہ اپنی مثال آپ ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔
تقریب میں سلمان صدیقی کو نیاز مندانِ کراچی کی طرف سے سعدالدین سعد اور الطاف احمد نے ہار پہنائے‘ بزمِ شاعراتِ پاکستان کی جانب سے افروز رضوی نے سلمان صدیقی کی خدمت میں تحفہ پیش کیا اور ہار پہنایا۔ آئرن فرحت نے بھی سلمان صدیقی کو گلدستہ پیش کیا۔ بزمِ یارانِ سخن کراچی کی طرف سے راقم الحروف نے سلمان صدیقی کو لوحِ سپاس (شیلڈ) پیش کی۔ اس موقع پر سلمان صدیقی نے کہا کہ میرے بارے میں صاحبانِ علم و دانش نے جو کچھ کہا ہے یہ ان کی ذرہ نوازی ہے ان کی مہربانی ہے‘ ان کے تبصرے میرے لیے سند کا درجہ رکھتے ہیں تاہم میں ادب کا ایک ادنیٰ کارکن اور طالب علم ہوں میری ترقی کا سفر جاری ہے۔ انہوں نے تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ اپنی غزلیں سنا کر خوب داد سمیٹی۔ صاحب تقریب پروفیسر جاذب قریشی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ پچھلے بیس برسوں کے درمیان کراچی کے ادبی منظر نامے میں کوئی ایسا نام بتائیں جو غزل بھی کہتا ہو‘ نظم بھی لکھتا ہو‘ نقاد بھی ہو‘ نظامت کار بھی ہو‘ ٹی وی اینکر بھی ہو‘ ادبی تنظیموں کے ساتھ جڑا ہوا بھی ہو‘ تو میں ان تمام حوالوں کے ساتھ کراچی میں رہائش پذیر سلمان صدیقی کا نام لیتا ہوں اس کا شمار‘ ان قلم کاروں میں ہوتا ہے جو فوجی و سرکاری آمریت‘ سماجی ظلم و تشدد کے درمیان پروان چڑھے ہوں یہ ایک حساس اور ذہین آدمی ہیں کہ انہیں سفید و سیاہ کی پہچان ہے۔ یہ تضاداتِ زندگی کا تجربہ رکھتے ہیں اور معاشرتی زندگی کو شاعری بنا کر پیش کرتے ہیں‘ ان کے یہاں بے ساختہ طنز ملتا ہے۔ نئی نسل کا یہ نمائندہ شاعر نئے خواب اور تازہ خواہشوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے‘ وہ کائناتی منظر نامے کی سیاحی کر رہا ہے اس کی شاعری کلاسیکی رویوں سے مزین ہے یہ اپنے ہم عصروں مین منفرد اظہار کے سبب اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ اس نے معاشرتی جبر کو بھی اپنی غزلوں میں لکھا ہے‘ ان کے لہجے میں خوف یا لالچ کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی‘ وہ عصری تجربوں کو بصیرت کے ساتھ بیان کر رہا ہے‘ وہ بکھرے ہوئے حالات مرتب کرتا ہے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے اس نے سچے اور مثبت الفاظ میں اپنے محبوب کی تعریف کی ہے اس حوالے سے اس نے کئی افسانوی تجربوںکو اپنی نظموںمیں Paint کیا ہے وہ محبوب اور محبتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے خواب دیکھتا ہے‘ وہ رات بھر مٹی کا چراغ بن کر پرچھائیوں سے جنگ کرتا ہے‘ کہیں کہیں وہ ہمیں بتاتا ہے کہ محبتوں کا عداتوں میں بدل جانا‘ روشنیوں کا اندھیرے میں اترنا‘ آئنہ و عکس کا پرچھائیں بن جانا‘ ذاتی مفادات‘ اختیارات کی ہوس کا بڑھتے جانا موجودہ عہد کا آشوب کہلاتا ہے اس نے اپنی شاعری میں شخصی تعلق اور رشتوں کو بھی اہمیت دی ہے وہ رشتوں کے تقدس کو پامال نہیں کرتا‘ اس نے اپنی نظموںمیں روایتی رویوں کو شکست دے کر نوحہ گری بھی کی ہے‘ اس کی شاعری میں کئی تہذیبوں کی شکست اور تہذیب و تمدن کی اجڑی ہوئی لاشیں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عروض اور تیکنیکی اعتبار سے بھی سلمان ایک مضبوط شاعر ہے اس کے شاعری میں جذباتی اسلوب نہیں ہے بلکہ زندگی کے حقائق شامل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ سلمان انسانی‘ تخلیقی اور تجرباتی اہمیت کے ساتھ اپنی موجودہ انفرادیت کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
…٭…
ادارہ فکر نو کے زیر اہتمام 29 اکتوبر کو محفل مسالمہ کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارتی سید آصف رضا رضوی نے کی۔ اکرم کنجاہی مہمان خصوصی اور حاجی عتیق الرحمن عطا مہمان اعزازی تھے۔ رشید خاں رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے‘ ادارۂ ہذا کے صدر علی محمد گوہر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادارہ نعتیہ مشاعرہ‘ محفل مسالمہ اور غزلوں کے مشاعروں کا اہتمام کرتا ہے ہم ہر سال خالد علیگ مرحوم اور نور محمد میرٹھی مرحوم کے لیے ادبی ریفرنس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں ہمارا ادارہ اختر سعیدی کی سرپرستی میں اپنی منزلیں طے کر رہا ہے‘ ہم چاہتے ہیں کہ فنونِ لطیفہ کے تمام شعبوں کی ترویج و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اس تناظر میں ہم محفل چہار بیت اور محفل موسیقی کا انعقاد بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت کراچی کی ادبی تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پرموجود نہیں ہیں‘ گروہ بندیوں سے میں نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے تمام ادبی اداروں سے درخواست کی کہ آپس کے اختلافات بھلا کر ادب کی خدمت کے لیے متحد ہو جائیں۔ تقریب میں قاسم جمال نے کلمات تشکر ادا کیے۔ اکرم کنجاہی نے اپنے اشعار سنانے سے قبل ادارۂ فکر نو کے عہدیدارعان و اراکین کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے انہیں مہمان خصوصی بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ رثائی ادب میں مسالمہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ واقعات کربلا نے انسانی زندگی کے ہر طبقۂ فکر کو متاثر کیا ہے اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ یزید ظلم و ستم کا استعارہ قرار پایا‘ امام حسینؓ رشد و ہدایت‘ صبر و ایثار‘ بے مثال جرأتِ اظہار کے پیکر نظر آئے۔ آپ کے 72 ساتھیوں نے اپنے لہو میں ڈوب کر حق و صداقت کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔
صاحب صدر اپنے خطاب میں کہا کہ ذکر حسینؓ ہمارے لیے باعث نجات ہے کیوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسینؓ کی فضیلت بیان کی ہے۔ جو لوگ رثائی ادب کی محفلیں سجاتے ہیں وہ نیک کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سلام وہ صنفِ سخن ہے جس میں کربلا کے واقعات و حالات نظم کیے ہیں حضرت امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا اور یزیدیت کی مذمت کی جاتی ہے۔ کربلا کا پیغام یہ ہے کہ ہم ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کریں چاہے اس کام میں ہماری جان بھی چلی جائے۔ ادارۂ فکر نو کے روح رواں اختر سعیدی نے کہا کہ لانڈھ‘ کورنگی کے شعرا کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ہم کراچی کے تمام اہم قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اردو زبان و ادب کی ترقی ہمارے) منشور میں شامل ہے جو لوگ ہمارے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اچھی شاعری کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے سینئر اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے جونیئرز کی حوصلہ افزائی کریں۔ مبتدی قلم کاروں کو چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کا احترام کریں۔ اس محفل مسالمہ میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے حضرت امام حسینؓ کو سلام پیش کیے ان میں غلام علی وفا‘ شاہد کمال‘ خالد معین‘ یامین وارثی‘ سلیم فوز‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف‘ شمع انصاری‘ سحر تاب رومانی‘ یوسف چشتی‘ طاہرہ سلیم سوز‘ نشاط غوری‘ رانا محمود قیصر‘ وقار زیدی‘ احمد خیال‘ محسن سلیم‘ عزیزالدین خاکی‘ ظفر بھوپالی‘ سخاوت علی نادر‘ اسحاق خان اسحاق‘ زبیر صدیقی‘ عاشق حسین شوکی اور علی کوثر شامل تھے۔
…٭…
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام یادرفتگاں کے حوالے سے مذاکرے اور مشاعروں کا انعقاد ہو رہا ہے اب انہوں نے بقیدِ حیات ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ’’شام‘‘ منانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اس سلسلے کی ایک تقریب گزشتہ بدھ کے دن اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے شمشیر الحیدری ہال میں ممتاز شاعر و سماجی رہنما رونق حیات کے لیے منعقد کی گئی۔ پروفیسر انوار احمد زئی نے صدارت کی۔ کوئٹہ سے تشریف لائی ہوئی شاعرہ جہاں آرا تبسم مہمان اعزازی تھیں جب کہ قادر بخش سومرو نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ عشرت حبیب نے نعت رسولؐ پیش کی۔ قادر بخش سومرو نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ تمام زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں کے اعزاز میں تقاریب کا سلسلہ جاری رہے گا۔ رونق حیات کے حوالے سے انہوں نے کہ اکہ ان کی شاعری میں ایسی تڑپ پائی جاتی ہے جو دل کی گہرائیوں میں پہنچ کر روح کے عمل میں ہنگامہ برپا کر دیتی ہے۔ یہ ہمارے ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ افروز رضوی‘ ضیا شہزاد‘ عرفان علی عابدی اور سعدالدین سعد نے رونق حیات کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ صاحب صدر پروفیسر انوار احمد زئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک و ملت کی ترقی کے لیے ہمیں نیا ویژن اپنانا ہوگا تاکہ ہمارا مستقبل محفوظ ہو۔ انہوں نے رونق حیات کے فن و شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ لسمات و حسیات کے شاعر ہیں ان کے کلام میں محبت اور جمالیاتی رنگ نظر آتا ہے ان کی نظموں میں زمانے کے مسائل و مصائب کا تذکرہ ہے اور وارفتگیٔ شوق‘ اظہارِ محبت‘ وصل و ہجر کے مضامین بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات سے انکار ممکن نہیں انہوں نے اپنی تنظیم کے تحت قلم کاروں کے مسائل کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ الطاف احمد نے کہا کہ رونق حیات عاشق مزاج شاعر ہیں یہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں ان کا ادبی قدوقامت بلند ہے۔ ان کا ادبی سلسلہ نیاز فتح پوری‘ سراج الدین ظفر‘ جوش ملیح آبادی‘ راغب مراد آبادی سے ملتا ہے نیز یہ محسن اعظم ملیح آبادی کے بھی معترف ہیں۔ افروز رضوی نے کہا کہ رونق حیات قادرالکلام شاعر ہیں ان کے سات شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں کہکشاں‘ قربتیں‘ دشتِ ہجراں‘ اشکِ رواں کا موسم‘ سورج کا گھر اور پائوں چھونے کی طلب ان کے شعری مجموعے ہیں۔ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے ان کی ادبی تنظیم اردو زبان و ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہے‘ یہ ایک سچے اور کھرے انسان ہیں انہوں نے کبھی بھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ صاحب اعزاز رونق حیات نے کہا کہ وہ اکادمی ادبیات کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ اس ادارے نے میرے اعزاز میں محفل سجائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شعرا و ادبا معاشرے کے اہم ستون ہیں کیونکہ یہ پرورش لوح و قلم کرتے ہیں لیکن مقامِ افسوس یہ ہے کہ یہ طبقہ بے شمار مسائل کا شکار ہے ہم نے قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے میدان عمل میں آئے ہیں ہم نے ہر سطح پر قلم کاروں کے لیے آواز بلند کی ہ لیکن جب تک اربابِ قلم متحد نہیں ہوں گے ان کے مسائل بھی حل نہیں ہوں گے۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی کو پھول کے تحائف اور اجرک پیش کی گئی۔ تقریب کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں رونق حیات‘ جہاں آرا تبسم‘ عرفان عابدی‘ افروز رضوی‘ عشرت حبیب‘ سائل آزاد‘ سید صغیر جعفری‘ صبیحہ صبا‘ زینت کوثر لاکھانی‘ زیب النساء زیبی‘ وقار زیدی‘ اکرام الحق شوق‘ سید اوسط علی جعفری‘ ریحانہ احسان‘ سعد الدین سعد‘ شاہدہ عروج‘ ضیاء شہزاد‘ تاجعلی رانا‘ طاہرہ سلیم سوز‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ یوسف اسماعیل‘ دلشاد احمد دہلوی‘ سلیم حامد خان‘ تنویر سخن اور قادر بخش سومرو نے کلام پیش کیا۔