جمہوریت یا دھوکا

376

تنویر اﷲ خان
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کا مطلب ہے ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے‘‘۔ اگر پاکستان میں ایسی ہی جمہوریت راج کررہی ہوتی تو کیا ہی بات تھی، اور اگر تھوڑی بہت کمی کے ساتھ بھی جمہوریت نافذ ہوتی تو بھی گزارا ہوجاتا۔ لیکن ہمارے ملک میں جمہوریت کا وجود ہی نہیں ہے۔ کیا ہمارے عوام کو وہ حقوق حاصل ہیں جو حکمرانوں کو حاصل ہیں؟ اور کیا ہماری حکومتوں کا ہر کام اور اقدام عوامی یا ملکی مفاد میں ہوتا ہے؟ کیا ہمارے ملک میں انتخابات ایسے شفاف ہوتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو عوام کی نمائندہ حکومت کہا جاسکے؟
ایسا بالکل نہیں ہے۔ لہٰذا جب جمہوریت کے یہ بنیادی اور ابتدائی تقاضے پورے نہیں ہوتے تو پھر جمہوریت کی جھوٹی گردان کیوں کی جاتی ہے! سچ یہ ہے کہ چند سو مفاد پرست، لالچی لوگ باہمی گٹھ جوڑ کرکے جمہوریت کا جھوٹا راگ الاپتے رہتے ہیں تاکہ عوام اس کی مدھر دھن میں غافل رہیں اور یہ اپنا اُلّو سیدھا کرتے رہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کا مطلب ہے ’’کچھ خاص لوگوں کی حکومت، کچھ خاص لوگوںکے ذریعے اور کچھ خاص لوگوں کے لیے‘‘۔ اور اس جمہوریت میں ہر طرح کی مالی بدعنوانی کی کھلی چھوٹ ہے۔ اس جمہوریت میں ہر طرح کی اقربا پروری کی مطلق آزادی ہے، اس جمہوریت میں جماعتوں پر خاندان کی اجارہ داری ہے، اس جمہوریت میں ’’ذاتی مفاد سب سے پہلے‘‘ کا اصول کارفرما ہے، اس جمہوریت میں حکمران ہر قانون سے بالاتر ہیں، اس جمہوریت میں سرکاری ملازم ذاتی غلام ہیں۔
اور اگر یہ سب کچھ نہیں ہے تو پھر ہمارے حکمرانوں کے خیال میں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جاتا، جمہوریت کے خلاف سازش ہوتی ہے، جمہوریت کو ناکام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی آسان سی تعریف کی جائے تو کچھ اس طرح ہوگی کہ چند سو لوگوں کی خدمت گزاری اور ان کو ہر طرح کے قانون سے چھوٹ کے نظام کو جمہوریت کہتے ہیں۔
جمہوریت کی بنیاد انتخابات ہیں، سب سے پہلے اس کا جائزہ لے لیں۔ جس کے گھر کے تہ خانے روپوں سے نہ بھرے ہوں وہ عزت کے ساتھ کاغذاتِ نامزدگی بھی جمع نہیں کرواسکتا۔ ایسے پھکّڑ آدمی کو نہ کوئی تجویز کنندہ ملے گا اور نہ ہی کوئی تائید کنندہ ملے گا، اور اگر اس نے اپنے معاشرتی تعلقات کے زور پر ان کا انتظام کر بھی لیا تو اس بے چارے کو انھیں ریٹرننگ افسر کے دفتر تک لے جانے کے لیے گاڑی کا بندوبست کرنا ہوگا۔ ابھی ہینڈبل، پوسٹر، بینر، ہورڈنگ، جھنڈے، ٹوپیاں، بیجز، کھانے، گاڑیاں، پولنگ ڈے کے لیے شامیانے، دھاندلی کے ایکسپرٹ کا انتظام بھی کرنا ہے۔ خالی جیب آدمی یہ سب کچھ کیسے کرے گا! جماعت اسلامی اور ماضی کی ایم کیوایم کے سوا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں امیدوار کو ٹکٹ دینے کے پیسے لیتی ہیں، جب کہ الیکشن کا سارا خرچ بھی امیدوار کے ذمے ہوتا ہے، اور امیدوار سے ان سیاسی جماعتوں کا یہ خاموش معاہدہ ہوتا ہے کہ آج الیکشن پر ایک لگائو، اور جیت جائو تو ایک کے دس بنائو، ہمیں بھی دو اور خود بھی عیش کرو۔ الیکشن جیتنے کے لیے امیدوار کتنے بڑے بڑے جھوٹ بولتے ہیں اور اگلے ہی دن بھول جاتے ہیں۔ اصولاً تو ان پر بھی ’’صادق‘‘ والی دفعہ لگنی چاہیے۔ یہی جھوٹے لوگ اپنی اسمبلی ممبری کے زمانے میں جمہوریت کا جنازہ اٹھائے پھرتے ہیں۔
جب کہ ہمارا ووٹر بھی برادری، قومیت، مسلک اور ذاتی مفاد کو ووٹ دیتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں دو بڑی سیاسی جماعتیں جو حکومت کرچکی ہیں ان میں سے ایک پیپلز پارٹی ہے۔ اس پارٹی میں ایسی کون سی خوبی ہے جس پر اسے ووٹ ملتا ہے؟ جہاز کے اغوا سے لے کر خواتین ارکان اسمبلی کو ہراساں کرنا اس پارٹی کے مشاغل ہیں۔ نااہلی، رشوت، سفارش، اقربا پروری، جبری قبضے، بھتہ ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ سندھ کی اس جماعت نے سندھ کے عوام کو پس ماندگی کے سوا کیا دیا ہے! لیکن پھر بھی یہ سندھ کے عوام کی آنکھ کا تارا ہے۔ فریال تالپور تو کسی بھی طرح اس پارٹی کی وارث نہیں ہیں، ان کا پیپلزپارٹی سے نند بھاوج کا تعلق ہے، لیکن مال کے لالچ میں ان محترمہ نے مخاصمت کے اس ابدی رشتے کا بھی پاس نہ کیا، اور وہ بھی اپنی مرحومہ بھاوج کے نام پر ووٹ مانگتی ہیں… اور مانگتی کیا ہیں، ووٹ نہ دینے پر دھمکیاں دیتی ہیں۔ شہدادپور کے ووٹرز کی ایک میٹنگ میں اُنھوں نے فرمایا کہ شہدادپور کے لوگ کان کھول کر سُن لیں، کسی نے بھی ہمیں ووٹ دینے کے بجائے کسی اور طرف دیکھا تو اُس کی خیر نہیں ہوگی۔ اور ہم سمجھتے ہیں اس طرح ووٹ لینے والوں کی حکومت بھی جمہوری ہے۔
رہے مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں نوازشریف… انھیں اپنی بیٹی، بیوی، بھائی، سمدھی کے سوا کوئی اور نظر ہی نہیں آتا۔ نوازشریف اگر نااہل ہوجاتے ہیں تو لندن میں خاندان جمع ہوکر طے کرتا ہے کہ مرکز میں مریم نواز اور حمزہ شہباز حکمرانی کریں گے اور صوبے میں مریم نواز کا داماد اور شہبازشریف کا دوسرا بیٹا حکومت چلائیں گے۔ نوازشریف خاندان کی مالی بدعنوانیاں خود ان سے بھی زیادہ مشہور ہیں۔ کوئی اگر نوازشریف کے بچوں کا نام پوچھے تو کم ہی لوگ مریم کے نام سے آگے بڑھ پائیں گے جب کہ پاناما اور اقامہ جناب نوازشریف کے وہ دوسرے نام ہے جن سے سارے ہی لوگ واقف ہیں، لیکن پنجاب اور خصوصاً لاہور میں ووٹ مسلم لیگ (ن) کو ہی ملے گا، اور اس ووٹ کے نتیجے میں بننے والی حکومت بھی جمہوری ہی کہلائے گی۔
لبیک یارسول اللہ ابھی صحیح سے بنی بھی نہیں ہے اور رضوی اور جلالی گروپ میں تقسیم ہوگئی ہے۔ جو جماعت چند ماہ بھی ایک پروگرام پر متحد نہ رہ سکی اُسے بھی ووٹ مل رہے ہیں۔ سولی چڑھے ممتاز قادری اور غازی علم دین، غازی عبدالقیوم اور ان کی قبروں سے لبیک پارٹی اپنے لیے ووٹ کشید کررہی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے کی ساخت، اپنے عوام کی ذہنی اور تعلیمی سطح کو دیکھے بغیر مغرب سے صرف جمہوریت کے نام کو نقل کرلیا ہے، اور کام ہمارے اس کے بالکل برعکس ہیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو تو یہی جمہوریت سوٹ کرتی ہے، وہ تو چاہیں گے کہ عوام جمہوریت کا لالی پاپ چوستے رہیں اور وہ پاکستان کے خزانے کو غٹاغٹ پیتے رہیں۔ لہٰذا جو جماعتیں جمہوریت کے معنی و مطلب سمجھتی ہوں اور اسے نافذ بھی کرنا چاہتی ہوں اُنھیں عوام کو بتانا چاہیے کہ جمہوریت اصل میں ہے کیا، اور پاکستان میں جو کچھ نافذ ہے وہ جمہوریت کا نہ چربہ ہے نہ جنازہ ہے، بلکہ نتائج کے اعتبار سے یہ آمریت، بادشاہت، ملوکیت، مارشل لا سے بھی بدتر کوئی موذی بلا ہے۔ منزل کی مخالف سمت جمہوریت کی ایسی گاڑی پر سو سال تک بھی سفر کرتے رہیں، ہزاروں بار الیکشن کروا لیں، اس سے جمہور کو جمہوریت کی منزل ملنے والی نہیں ہے۔