افروز عنایت
یکم اکتوبر کے جسارت سنڈے میگزین میں جناب زاہد عباس صاحب کا کالم ’’ہمارے اسکول، تمہارے اسکول‘‘ پڑھنے کا موقع ملا جو حقیقت پر مبنی ایک بہترین تحریر تھی۔ کالم پڑھتے ہی میں ماضی کی طرف چلی گئی جب بابا اپنے ماضی کے واقعات ہم بہن بھائیوں سے شیئر کرتے تھے۔ بابا نے بتایا تھا کہ وہ سندھ مدرسۃ الاسلام کے ایک ذہین طالب علم تھے لیکن عربی مضمون میں انہیں بڑی دشواری پیش آتی تھی، جس کے لیے انہیں رہنمائی کی سخت ضرورت تھی۔ لہٰذا ایک دن انہوں نے استاد محترم ’’قاضی صاحب‘‘ سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے بڑی شفقت سے کہا: بیٹا شام کے وقت میں اسکول کے پاس ایک ایکسٹرا کلاس لیتا ہوں جہاں ضرورت مند بچے آتے ہیں، اگر آپ بھی آنا چاہیں تو بے شک آئیں۔ بابا نے بتایا کہ اگلے دن میں مخصوص جگہ پہنچ گیا۔ سڑک کے کنارے اسٹریٹ لائٹ میں ان کے بہت سے شاگرد بیٹھے تھے جو ان سے فیض حاصل کررہے تھے اور اس سلسلے میں امیر یا غریب کسی بچے سے وہ معاوضہ طلب نہیں کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے اساتذہ کرام ہماری تربیت میں بھی بھرپور حصہ لیتے تھے۔ وہ اپنے اس کام کو بڑی دلجمعی، ایمان داری اور خلوصِ دل سے انجام دیتے تھے، اور طالب علم ان کی عزت اور احترام اسی طرح کرتے جیسے والدین کا کرتے تھے۔ بابا اکثر کہتے کہ ہم بڑے خوش نصیب تھے کہ ہمیں ایسے اساتذہ ملے جن کی جھلک آج بھی ہماری ذات میں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ سرکاری اسکولوں کو قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
گرچہ ہم بھائی بہنوں نے بھی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ اُس وقت بھی سرکاری اسکولوں کی ایسی ابتر حالت نہ تھی جیسی کہ موجودہ زمانے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں کی طرف والدین نے توجہ دی اور اپنے بچوں کو ان پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم دلوانا ضروری سمجھا۔ بے شک پرائیویٹ اسکول آج ایک بزنس اور کاروبار بن گئے ہیں جہاں مالکان اپنی من مانی کرتے ہیں، جہاں بہت سی برائیاں ہیں۔ لیکن ان ’’بڑے پرائیویٹ اسکولوں‘‘ میں تعلیمی معیار پھر بھی پایا جاتا ہے جس کی وجہ منتظمین کی حکمت عملی یا پالیسی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ تمام پرائیویٹ اسکول اعلیٰ تعلیمی معیار کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں، لیکن 50 فیصد بڑے پرائیویٹ اسکول اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب ہیں۔ میں چونکہ خود بھی کراچی کے ایک معروف اسکول میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہوں، میرے دونوں چھوٹے بچوں نے یہیں سے میٹرک کیا ہے۔ آس پاس کے بہت سے اسکولوں کے مقابلے میں اِس اسکول کو بہتر پایا۔ اس کی وجہ یہاں کے منتظمینِ اعلیٰ کی حکمت عملی اور سخت پالیسی ہے۔ اساتذہ کرام ان منتظمین کی رہنمائی اور نگرانی میں بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔ یہی چیز بڑے پرائیویٹ اسکولوں میں رائج ہے۔ یہاں اساتذہ منتظمینِ اعلیٰ کے ڈر سے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک بات جو میں نے نوٹ کی، وہ یہ ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کرام میں بمشکل 50 فیصد اساتذہ فرض شناسی، ایمان داری اور خلوص جیسی خصوصیات کی بنا پر سچائی سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، اور باقی 50 فیصد منتظمینِ اعلیٰ کی سخت پالیسی اور نگرانی کی وجہ سے بہترین کارکردگی دکھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ان اسکولوں کی کارکردگی سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں لاکھ درجہ بہتر کہی جا سکتی ہے۔
معذرت اور افسوس کے ساتھ لکھ رہی ہوں کہ ہماری قوم (پاکستانی) ڈنڈے کے زور پر کام کرنے کی عادی ہے۔ اگر آج بھی سرکاری تعلیمی اداروں میں سخت قوانین پر پابندی سے عمل پیرا ہوں تو یقینا یہی ’’سرکاری اسکول‘‘ ماضی کی طرح شاندار کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ آج کا یہ المیہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں منتظمین ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور اساتذہ ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ میری بھابھی نے جب سرکاری اسکول جوائن کیا تو اُن میں بڑا جوش و جذبہ تھا، بڑے شوق سے انہوں نے اپنے کام کی ابتدا کی، مجھ سے رہنمائی چاہی اور میرے بتائے ہوئے طریقے کو اپنایا۔ لیکن نتیجہ صفر نکلا۔ باقی اساتذہ نے اعتراض کیا بلکہ برا بھلا کہا کہ یہ پرائیویٹ اسکولوں کا طریقہ اپنے پاس ہی رکھو، ماحول کو ’’خراب‘‘ نہ کرو۔ یعنی بھابھی صاحبہ کی بہترین کارکردگی کو سراہنے کے بجائے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اسی طرح ایک بچی نے جو سرکاری کالج میں پڑھاتی ہے، کالج کی ابتری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ پرنسپل صاحبہ نہ خود بہتر کارکردگی دکھا رہی تھیں اور نہ ہی اساتذہ کرام سے کام لے رہی تھیں جس کی وجہ سے طالبات کی حاضری 25 فیصد تک چلی گئی، چند اساتذہ کرام اپنی ڈیوٹی صحیح طرح انجام دے رہی تھیں، باقی کا حال ناقابلِ بیان۔ کالج کو ملنے والے فنڈز کہاں جارہے تھے، اس کی کوئی خبر گیری کرنے والا نہ تھا۔ پرنسپل صاحبہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد عارضی طور پر ایک لیکچرار صاحبہ کو پرنسپل کا چارج دے دیا گیا۔ انہوں نے آتے ہی اساتذہ کرام کو ٹائم ٹیبل کے مطابق ریگولر کلاسز لینے کی تاکید کی جس کی وجہ سے چند ماہ کے اندر مثبت تبدیلیاں نظر آئیں، طالبات کی حاضری میں اضافہ ہوا، ٹیچرز بھی ریگولر حاضر ہونے لگیں اور سرکار سے ملنے والے فنڈز کو کالج کی بہتری کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ قصہ مختصر کہ دو سال کی قلیل مدت میں کالج کا نقشہ ہی بدل گیا۔
ان مذکورہ بالا دو مثالوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غلطیاں کہاں کہاں ہورہی ہیں اور قصور کس کا ہے۔ دیکھا جائے تو موجودہ دور کے اساتذہ کرام پر دُہری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اگر وہ ایمان داری سے اپنے فرائض انجام دیں… یعنی شاگردوں کی تعلیم کے ساتھ اُن کی تربیت اور اُن کی صحیح رہنمائی۔ کیونکہ آج کے والدین مصروف زندگی گزار رہے ہیں۔ 60-50 فیصد والدین ہی صحیح طرح اپنی اولاد کی تربیت کے لیے وقت نکال پاتے ہیں، جب کہ باقی والدین ملازمت اور اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے اولاد کی صحیح خطوط پر تربیت کرنے سے قاصر ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام میں کمی آنے کی وجہ سے بچے دادا، دادی اور دوسرے بزرگوں کی تربیت سے بھی محروم ہیں۔ لہٰذا منتظمینِ اعلیٰ اور خصوصی طور پر اساتذہ کرام اپنے اپنے فرائض ایمان داری اور خلوصِِ دل سے ادا کریں تو یقینا وہ دور آج بھی آسکتا ہے کہ شاگرد اپنی درس گاہوں اور اپنے اساتذہ کرام کا نام عزت و احترام سے لے سکتے ہیں اور معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اور والدین کے اوپر جو ایک گراں قدر تعلیمی اخراجات کا بوجھ ہے، خصوصاً نچلے اور متوسط طبقے کے والدین پر، وہ کم ہوسکتا ہے۔ میں متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہوں، ہمارے بجٹ کا ایک بڑا حصہ چاروں بچوں کے تعلیمی اخراجات پر صرف ہوجاتا تھا، کیونکہ آج کے دور کا تقاضا ہے بچوں کو اعلیٰ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا۔ اکثر بیرونی ممالک میں بچوں کے تعلیمی اور طبی اخراجات حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے جو ایک بڑی ’’نعمت‘‘ کے مترادف ہے۔ رب العزت ہمارے ارباب اختیار اور حکمرانوں کو بھی ایسے اقدامات کے لیے کوششیں کرنے کی توفیق دے، آمین۔ غور کریں تو صرف ایک تعلیمی کھاتے کے مسائل حل کرنے سے ہی معاشرے کے کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
آخر میں اساتذہ کرام سے ایک عرض کہ علم دینا اور لینا نبیوں کا ’’شیوہ‘‘ ہے، لہٰذا اس عظیم اورمقدس پیشے کی انجام دہی نہایت دیانت داری سے کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ ہمیں اپنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ پاکستان کی بقا و ترقی کے لیے تعلیمی اداروں کی اصلاح لازمی عمل ہے جس کے لیے ہم سب کو اپنے آپ کو بدلنا پڑے گا۔