پاک امریکا تعلقات… نئے موڑ

371

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل
امریکا کے سیکرٹری خارجہ ریکس ٹلرسن نے امریکی سینیٹ کی امورِ خارجہ کمیٹی کی سماعت کے دوران اپنے دورۂ پاکستان کے بارے میں امریکی سینیٹر جان براسو کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانیوں نے اشارہ دیا ہے کہ اگر ہم انہیں دہشت گردوں کی خفیہ معلومات فراہم کریں تو وہ ان کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہیں۔ سینیٹر جان براسو کا سوال تھا کہ وہ اپنے دورۂ پاکستان کے بارے میں بتائیں کہ وہ وہاں سے کیا سن کر آئے ہیں۔ امریکی اسٹیٹ سیکرٹری نے مزید بتایا کہ ہم تجربے کے طور پر مخصوص خفیہ معلومات فراہم کرکے انہیں ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس موقع دینے کی تفصیل نہیں بتائی البتہ سینیٹ کمیٹی کو پیشکش کی کہ اگر آپ مزید تفصیلات جاننا چاہیں تو بند کمرے میں سماعت کرنی پڑے گی۔
اس سے پہلے جب گزشتہ ماہ ریکس ٹلرسن پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو پاکستانی حکام نے اُن کا شایانِ شان استقبال نہیں کیا تھا اور امریکی میڈیا میں بھی پاکستان کے سرد رویّے کا ذکر تھا۔ اس کی ایک وجہ اس سے پہلے امریکی وزیر دفاع کے بیانات تھے جو انہوں نے کابل اور دہلی میں جاری کیے تھے جن میں پاکستان کے کردار کو متنازع بناکر پیش کیا گیا تھا۔ جب سے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عنانِ اقتدار سنبھالی ہے وہ مسلسل پاکستان کے خلاف اور ہندوستان کے حق میں بول رہے ہیں۔ پاکستان کو دبائو میں رکھنا ان کی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی نکتہ ہے جس پر وہ اوّل روز سے عمل پیرا ہیں۔ مجموعی طور پر وہ تمام مسلم ممالک کے ساتھ معاندانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن پاکستان کے خلاف ان کی حکمت عملی واضح ہے۔
جب انہوں نے ماہِ ستمبر میں افغانستان کے بارے میں پالیسی بیان دیا تھا تو اُس وقت بھی انہوں نے پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا تھا اور افغانستان میں امریکی عسکری کارروائیوں کی ناکامی کا بوجھ بڑی حد تک پاکستان پر ڈالتے ہوئے اس کو دھمکی دی تھی اور ’’ڈنڈے و گاجر‘‘کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اس کو انعام دینے کی ترغیب بھی دی تھی۔ اس کے بعد سے مسلسل امریکا کے اعلیٰ سول اور ملٹری حکام نے اسلام آباد کا رخ کیا اور پاکستان کو باور کراتے رہے کہ امریکا کا مقصد اس کی مخالفت نہیں بلکہ صحیح راستے پر لانا ہے جس کے لیے اس کو اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس دوران پاکستان میں حکمران تبدیل ہوئے اور مقبول رہنما میاں نوازشریف کو بدعنوانی کے الزام میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے معزول کردیا اور ان کی جگہ ایک ’’عبوری‘‘حکومت شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں قائم ہوئی، جس میں پہلی مرتبہ مسلم لیگی دور میں وزارتِ خارجہ کا قلمدان خواجہ آصف کے حوالے کیا گیا۔ اس طرح امریکا کو ایک نسبتاً کمزور حکومت سے واسطہ پڑا، لیکن شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی پاکستانی حکومت نے غیر جذباتی انداز میں امریکی اعلیٰ اہلکار وں کو ہری جھنڈی دکھائی اور ان کے ساتھ میل ملاقات میں سردمہری کا مظاہرہ کیا۔
اس دوران امریکی حکومت کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر مختلف انداز میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیویارک میں ٹرک کے ذریعے دہشت گردی کے واقعے میں ہلاکتوں سے پہلے انتخابی مہم کے دوان روسی مداخلت کے الزام کی تحقیقات نے اہم پیش رفت کی ہے جس سے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت دائو پر لگ چکی ہے۔ اسی دوران ٹرمپ کے درجن بھر قریبی ساتھی اور محکموں کے سربراہان مستعفی ہوچکے ہیں۔ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیاں بیرونِ ملک بھی اپنا رنگ جما رہی ہیں۔ شمالی کوریا قابو میں نہیں آرہا اور وہ مسلسل اپنے ایٹمی اور دُور مار میزائل پروگرام کو توسیع دے رہا ہے، اور امریکا کو چڑانے کے لیے ٹیسٹ فائر بھی کررہا ہے، جب کہ امریکی حکومت اُس کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف بھی نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے اور ایٹمی تجربات پر ایران اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والے معاہدے جس کو سابقہ امریکی صدر بارک اوباما نے تسلیم کیا تھا اور ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنا شروع کردیے تھے، کے برخلاف امریکا نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے اور کئی ایرانی شخصیات کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیا ہے، جس پر ایرانی حکومت کے نسبتاً معتدل صدر حسن روحانی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے امریکی میڈیا حسن روحانی کو ایک معتدل اور لبرل قیادت کے طور پر پیش کرتا تھا اور سابقہ صدر احمدی نژاد کو انتہا پسند گردانتا تھا۔ اسی طرح امریکی حکومت نے اپنے پڑوسی لاطینی ممالک کے خلاف بھی کئی قسم کی اقتصادی پابندیاں لگائی ہیں تاکہ امریکی سرمایہ کاری سے وہ مستفید نہ ہوسکیں۔ پاکستان کے محاذ پر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ پاکستان جو ایک زمانے میں امریکی کیمپ میں نظر آتا تھا اور ری پبلکن پارٹی کے ادوارِ حکومت میں اس کی سرپرستی کی جاتی تھی، اب امریکا مخالف کیمپ میں نظر آرہا ہے اور روز بروز یہ فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے بھی ہندوستان سے دوستی کی پینگیں بڑھائی تھی اور پاکستان کو نظرانداز کیا تھا، اور امریکی پالیسی ساز اس کی بڑی وجہ اقتصادی بتاتے تھے کہ ہندوستان ایک بڑی تجارتی منڈی ہے جس کو ہم پاکستان سے تعلقات کی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے۔ لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک قدم آگے بڑھ کر ہندوستان کے ساتھ ہر قسم کی دوستی اختیار کرلی ہے اور معاشی تعاون کے ساتھ عسکری تعاون بھی پیش کردیا ہے۔ اب ہندوستان امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار بننے جارہا ہے اور وہ فرسودہ روسی جنگی آلات کی جگہ جدید ترین امریکی حربی مصنوعات سے مستفید ہونا چاہتا ہے جس کے ذریعے وہ صرف پاکستان کو زیر نہیں کرنا چاہتا بلکہ چین کے ساتھ بھی دودو ہاتھ کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔ وہ ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف اس کو چین کی مکمل حمایت حاصل ہے اور چین عسکری میدان کے ساتھ اب معاشی میدان میں بھی کھل کر پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ دوسری طرف پاکستان سپر پاور امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات اور امتیازی حیثیت کو کسی نہ کسی درجے میں برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔ یعنی وہ اپنی جغرافیائی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے ایک متوازن پالیسی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ وہ دنیا کے اس اہم خطے میں اپنی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے تمام عالمی طاقتوں سے عملی تعلقاتِ کار رکھنے کا خواہاں ہے۔ اس معاملے میں چین کا رویہ بھی مفاہمانہ ہے۔ وہ خود بھی عالمی سطح پر کسی قسم کی محاذ آرائی کا قائل نہیں۔ اس کی فوجیں کسی دوسرے ملک میں اس وقت موجود نہیں۔ جب کہ امریکا اور روس کئی ممالک میں حالتِ جنگ میں ہیں۔ اِن دنوں بھی روس شام میں مہلک بمباری کررہا ہے، جب کہ امریکی فوجیں افغانستان، عراق، شام، یمن اور کئی دوسرے ملکوں میں کسی نہ کسی انداز میں ملوث ہیں۔ چین نے جو اقتصادی ترقی کی ہے وہ حالتِ امن میں کی ہے اور وہ بغیر کسی مقابلے کے دنیا میں معاشی لحاظ سے نمبرون بن چکا ہے، اور اب وہ چاہتا ہے کہ اس اقتصادی ترقی کے ثمرات سے اس کی ایک ارب چالیس کروڑ آبادی مستفید ہو۔ وہ پاکستان کو بھی مشورہ دیتا ہے کہ وہ معاشی ترقی پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔ اس نے پاکستان کے ساتھ 54 ارب ڈالر کے مساوی اقتصادی راہ داری کا جو منصوبہ بنایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے جس سے دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان کے ذریعے گوادر بندرگاہ تک رسائی حاصل کرنا اور بحیرہ عرب کے گرم پانیوں سے پورے سال استفادہ کرنا چین کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کسی محاذ آرائی میں پڑ کر اس موقع کو ضائع کرے۔ اس لیے برکس اعلامیہ کے ذریعے اس نے پاکستان کو ایک نرم پیغام بھی بھیجا ہے کہ اگر اس کی سرزمین پر دہشت گردوں کے کوئی ایسے خفیہ ٹھکانے ہیں جن کا پاکستانی حکومت کو علم ہے تو ان کو ختم کرے۔ ویسے بھی اب ایسے ٹھکانوں کو خفیہ رکھنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اس سے پہلے جب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے پالیسی بیان میں پاکستان پر خفیہ کمین گاہوں کا الزام لگایا تھا تو پاکستانی حکومت سے پہلے چینی وزارتِ خارجہ نے اس کا جواب دیا تھا اور اس کی تردید کی تھی۔
امریکی خارجہ سیکرٹری نے پاکستان کو ایک اور موقع دینے کی جو بات کی ہے وہ بلاوجہ نہیں۔ اس سے پہلے جب پاکستانی افواج نے کمانڈو ایکشن کے ذریعے امریکی اطلاع پر کینیڈین جوڑے کو بچوں سمیت بازیاب کیا تھا تو امریکی صدر نے پہلی مرتبہ پاکستان کو شاباشی دی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ مغویان نے رہائی کے بعد امریکی جہاز اور روٹ استعمال کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ اس خاندان کے سربراہ کو ڈر تھا کہ سابقہ بیوی کے القاعدہ سے مبینہ تعلقات کی وجہ سے اس سے پوچھ گچھ ہوسکتی ہے۔ بہرکیف پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ امریکی ایما پر افغان حکومت کے ساتھ تعاون کرے اور اس کے ساتھ خفیہ معلومات شیئر کرے۔ اس سلسلے میں پاکستانی سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کابل کا دورہ بھی کرچکے ہیں اور حالیہ کابل دھماکے پر انہوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔ افغانستان کی عسکری قیادت بھی پاکستان آچکی ہے اور امریکی وزیر دفاع اور فوجی قیادت بھی پاکستان کے دورے کرچکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ’’بدنامِ زمانہ‘‘ ISIکو افغان طالبان کے خلاف استعمال کریں۔ لیکن پاکستان جانتا ہے کہ افغانستان کی سنگلاح چٹانوں سے سر پھوڑنا کوئی دانش مندی نہیں اور مذاکرات کا راستہ ہی سہل ترین طریقہ ہے، جس سے افغانستان اور خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ چین نے طالبان قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانے کی ایک کامیاب کوشش کی تھی، اب شاید وہ بھی امریکی ،سگنل کے انتظار میں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو جب ہوش آئے گا تب ہی وہ ایسا سگنل دے سکیں گے۔ اُس وقت کا انتظار رہے گا۔