ماجد حسین، B-86، بلاک 2 ، 13/D-2، گلشن اقبال، کراچی
میں ریٹائرڈ ڈی ایس پی، سندھ پولیس ہوں۔ میں نے ایک فلیٹ (A-003) اپنے بیٹے معراج حسین کے نام پر 10 نوبر1999 کو شنگریلا گارڈن گلستان جوہر میں بک کروایا تھا۔ میں نے کُل رقم 7لاکھ 50ہزار روپے بلڈرز کو دے دی تھی۔
بلڈرز نے یکمشت ادائیگی کے بعد 6 ماہ میں قبضہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ میں نے دو مزید فلیٹ اپنے بیٹوں کے نام پر قسطوں پر بک کروائے اور بلڈر نے دو لاکھ روپے اضافی کارنر سائڈ فلیٹ کی بنیاد پر وصول کیے۔ میں نے اسی وقت 4 لاکھ روپے ادا کیے اور اس طرح بلڈرز نے 1لاکھ 60ہزار روپے قسطوں کی مد میں وصول کیے۔ مزید
دو فلیٹوں کے لیے بلڈرز کو 5لاکھ 60 ہزار روپے ادا کیے گئے۔ بعد میں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ فلیٹ کارنر نہیں ہیں۔
اس کے بعد میں پروجیکٹ کے مالک تنویر احمد سے ’’MAXIM Advertising Co.‘‘ ان کے آفس، نوبل ہائٹس بلڈنگ، یونیورسٹی روڈ ملنے گیا، جہاں انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ان دو کارنر فلیٹوں کے بدلے میں دو فلیٹ فراہم کریں گے۔ تاہم میں نے صرف ایک فلیٹ A103 کے لیے آمادگی ظاہر کی اور جو رقم ہم نے دی تھی وہ اس ایک نئے فلیٹ کی مد میں شمار کی گئی۔ تاہم بلڈر نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا۔
میں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور گورنر سندھ کو درخواست دی جو آگے ایگزیکٹو آفیسر کنٹونمنٹ بورڈ فیصل کو بھیج دی گئی۔ انہوں نے 7 جون 2013ء کو اجلاس بلوایا جہاں بلڈرز نے وعدہ کیا کہ وہ ریگولیشن پلان کنٹونمنٹ سے منظور ہوتے ہی جلد از جلد فلیٹوں کو مالکان کے حوالے کردے گا۔ مذکورہ پلان 15 مئی 2015ء کو منظور کرلیا گیا تاہم بلڈرز نے اب تک فلیٹوں کا قبضہ الاٹیوں کو نہیں دیا ہے۔ میں چیف جسٹس، گورنر سندھ اور متعلقہ اداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ بلڈر سے فلیٹ کا قبضہ دلوانے میں ہماری مدد کی جائے۔