بازاری کھانوں کو ترجیح کیوں؟

197

کراچی اور دوسرے شہروں میں بڑھتی ہوئی فاسٹ فوڈز کی دکانیں، کیفے، میکڈونلڈز، پیزا ہٹ کس طرف اشارہ کررہی ہیں ہم اور ہمارے بچے ان کھانوں کی عادی ہوتے جارہے ہیں، غیر ملکی کس طرح ہمارے ہی ملک میں اپنے کاروبار کو بڑے زور و شور سے چلا رہے ہیں نہ صرف چلا رہے ہیں بلکہ انہوں نے ہمارے روایتی اور سادہ کھانوں کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش جاری رکھی ہوئی ہے اور جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ ہم ان کھانوں کے عادی ہوگئے جو شدید نقصان کا باعث بنتے ہیں، یہ کھانے نہ صرف جسمانی طور پر نقصان کا باعث ہیں بلکہ ذہنی صلاحیتوں کو بھی صلب کررہے ہیں۔ دیکھنے میں آیا کہ لوگ کاہلی، سستی اور چڑچڑا پن کا شکار نظر آتے ہیں، صبر اور برداشت ختم ہوتی جارہی ہے، غصہ کی کیفیت میں اضافہ نظر آتا ہے جس کی وجہ سے اخلاقیات پوری تباہ ہورہی ہے۔ صحت مند ہونے کے بجائے انسان اندر سے کھوکھلا ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے اگر ہم آج نہ جاگے اور ہم نے اپنے کھانوں کو سادہ اور صحت مند نہ بنایا تو ہم بھُر بھُری مٹی کی طرح ڈھیر ہوجائیں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کو آگاہی دینی ہے کہ کیا کھانا ہمارے لیے اچھا ہے اور کیا نہیں۔ بڑے بڑے ہوٹل کے علاوہ اب تو جگہ جگہ گلی، محلوں میں بھی کھانے کی دکانیں نظر آتی ہیں جو صحت کے اصولوں سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں بس پیسا کمانے کے ذریعے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس طرح کے کھانوں نے ہمارے روایتی کھانوں کو ختم کیا ہے بلکہ ہمارے مالی بجٹ کو بھی متاثر کیا ہے اور گھروں میں لڑائی جھگڑوں کی وجہ بھی ہے۔ ان سب کے خلاف ہم کو مل کر ایکشن لینا ہے۔
شبانہ ضیا، رضویہ سوسائٹی یوسی ون