موجودہ دور میں جہاں اسکولوں اور کالجوں میں محنت سے پڑھانے کے بجائے اساتذہ نے کوچنگ سینٹرز کھول کر والدین پر بچوں کے تعلیمی اخراجات کا دہرا عذاب ڈالا وہاں والدین نے بھی بچے کو پیسے کے زور پر غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقے سے آگے لانے کے لیے استاد کے احترام، محبت اور محنت سے دور کردیا، قصور وار دونوں ہی ہیں۔ خاتون پاکستان گرلز کالج میں جہاں تمام گورنمنٹ کالج کی طرح اساتذہ صرف خانہ پُری کے لیے آتے ہیں تا کہ حاضری لگوا کر اپنی تنخواہ وصول کرسکیں، لڑکوں کے بارے میں غلط رویوں کی شکایت ہوسکتی ہے مگر لڑکیوں کی اکثریت نہ صرف محنت سے پڑھنا چاہتی ہے بلکہ کالج میں باقاعدہ کلاسز لینا چاہتی ہے مگر اساتذہ پڑھانے کو تیار نہیں، مجبوراً بچوں کو کوچنگ سینٹرز کا رُخ کرنا پڑتا ہے جہاں ایک کلاس میں کالج کی کلاس سے بھی زیادہ بچے ہوتے ہیں۔ کوچنگ سینٹر کا مالک تو لاکھوں کما لیتا ہے مگر ان غریب بچوں کا مستقبل تاریک کردیتا ہے جو وہاں کی فیس نہیں دے سکتے اور کالج میں بھی پڑھائی سے محروم رہتے ہیں (کیوں کہ وہاں کلاسز نہیں ہوتیں) کوچنگ سینٹرز کی وجہ سے آپ نے کالج ویران کردیا مگر پریکٹیکل تو کروادیں!!۔ اس کے لیے بھی طرح طرح کے حیلے بہانوں سے بچوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ ان کو کالج بلا کر بغیر پریکٹیکل کرائے گھر واپس بھیج دیا جاتا ہے، یہیں پر بس نہیں ہوتا جو لڑکیاں حجاب لیے ہوتی ہیں ان کا مذاق اُڑایا جاتا ہے، شعائر اسلام کی تضحیک کرتے ہوئے اسے اتارنے کا کہا جاتا ہے آپ کو گرمی نہیں لگتی؟ آپ یہ کیوں پہن کر آتی ہیں، پلیز اسے اتاردیں!!۔ محکمہ تعلیم میں کوئی غیرت مند مسلمان ہے جو ان نام نہاد اساتذہ کو اپنے گمراہ کن خیالات پھیلانے سے روکے۔ آپ اگر سیکولر نظریات رکھتی ہیں تو معصوم طالبات پر اپنے نظریات نہ تھوپیں اور انہیں ذہنی تشدد کا نشانہ نہ بنائیں کیوں کہ تعلیمی اداروں میں صرف اور صرف تعلیم ہونی چاہیے جو نہیں ہورہی ہے، کیا آپ لوگ تنخواہیں تربیت کرنے کے بجائے گمراہ کرنے کی وصول کررہے ہیں اور خاتون پاکستان کالج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہے یا فرانس میں!!۔
نسرین لئیق، نارتھ ناظم آباد