’’ٹرائیکا‘‘ اور حکومت کے کرتوت

378

سیاست میں ’’ٹرائیکا‘‘ کی اصطلاح ایک ایسے سہ فریقی اتحاد کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو اقتدار پر قابض ہو یا حکومت کو اپنے اشاروں پر چلا رہا ہو۔ ماضی میں ’’تھری اے‘‘ یعنی اللہ آرمی اور امریکا پر مشتمل ٹرائیکا کا بڑا چرچا رہا ہے۔ یہ اصطلاح بعض برخود غلط سیکولر دانشوروں اور صحافیوں نے وضع کی تھی اور اس کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا کہ پاکستان میں کاروبار حکومت اللہ فوج اور امریکا مل کر چلارہے ہیں اور اس میں عوام کی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے، ان بیوقوفوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ اللہ کو کسی ’’ٹرائیکا‘‘ میں شامل ہونے کی حاجت نہیں ہے وہ اپنی ذات میں قادر مطلق اور مختار کلّی ہے اور کائنات کا پورا نظام جس میں پاکستان بھی اس کی تکوینی مشیت کے مطابق چل رہا ہے، آرمی ہو یا امریکا سب اللہ کی قدرت کے آلہ کار کا درجہ رکھتے ہیں۔ بہر کیف ’’تھری اے‘‘ کی اصطلاح نے بہت عرصے تک پاکستانی عوام اور ان کے اصحاب الرائے کو کنفیوژ کیے رکھا اور مقتدر حلقے اپنی من مانی کرتے رہے، پھر ’’تھری ایم‘‘ کی اصطلاح بھی عام ہوئی جس کا مطلب تھا کہ ملا، ملٹری اور مارشل لا۔ ملک میں فوج نے مہم جوئی کی اور مارشل لا لگا تو بیچارے ملا کو مفت میں بدنام کیا گیا اور کہا گیا کہ ملا چوں کہ عوامی طاقت سے برسراقتدار نہیں آسکتا اس لیے وہ درپردہ اقتدار پر قابض ہونے کے لیے فوج کا سہارا لیتا ہے اور فوجی آمریت کے پردے میں اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے۔ ملا سے ان لوگوں کی مراد مذہبی طبقہ تھا۔ پاکستان چوں کہ اسلام کے نام پر بنا ہے اور یہاں ابتدا ہی سے نفاذ اسلام کا مطالبہ کیا جارہا ہے، چناں چہ نفاذ اسلام کو روکنے کے لیے ضروری تھا کہ مذہبی طبقے کو مطلعون کیا جائے اور ملا کو تضحیک کا نشانہ بنایا جائے۔ چوں کہ جماعت اسلامی اس مطالبے میں پیش پیش تھی اس لیے مخالفین نے جماعت اسلامی کو فوج کی بی ٹیم قرار دیا اور اسے چاروں طرف سے گھیرنے کی کوشش کی گئی لیکن دنیا جانتی ہے کہ جب بھی فوج آئی ملک میں مارشل لگا تو سب سے پہلے فوج نے جماعت اسلامی کو ہی نشانہ بنایا۔ جنرل ایوب خان کی فوجی آمریت میں جماعت اسلامی کا گلا گھونٹنے کی پوری کوشش کی گئی، اس کے خلاف بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا کیا گیا، اس کے ملک گیر اجتماع پر فائرنگ کی گئی اور ایک کارکن کو شہید کردیا گیا۔ پھر اس پر بھی بس نہ چلا تو جماعت اسلامی پر پابندی لگادی گئی اور اس کے قائدین کو گرفتار کرلیا گیا لیکن عدلیہ نے چارہ جوئی کی اور فوجی آمریت کو خاک چاٹنا پڑی۔ ہاں یاد آیا اس سے بھی بہت پہلے 1950ء کے عشرے کے اوائل میں جب ختم نبوت کی تحریک چلی تھی اور لاہور میں پہلا مارشل لا لگا تھا تو اس وقت بھی نزلہ جماعت اسلامی ہی پر گرا تھا اور ایک فوجی عدالت نے ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھنے پر سید مودودی کو سزائے موت سنادی تھی اور سید صاحب نے یہ سزا سننے کے بعد کمال استغنا سے یہ تاریخی جملہ ادا کیا تھا ’’اگر اللہ کی عدالت نے مجھے موت سے ہمکنار کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تو یہ لوگ بے شک الٹے لٹک جائیں مجھے نہیں لٹکا سکتے‘‘ پھر دنیا نے دیکھا کہ فوجی عدالت کا فیصلہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ اب مدتوں بعد ایک نئی ٹرائیکا کا واویلا ہورہا ہے یہ واویلا کوئی اور نہیں خود حکومت کررہی ہے اور اس کے وزیر داخلہ محترم احسن اقبال فرما رہے ہیں کہ ایک ٹرائیکا ہمارے جمہوری نظام میں فوج کو مداخلت پر اُکسا رہی ہے، انہوں نے اس ٹرائیکا میں جن تین عناصر کی نشاندہی کی ہے ان میں سے ایک میڈیا ہے، دوسرا کرایے کے کچھ سیاستدان ہیں اور تیسرا کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران ہیں جو شام ڈھلے ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر بھاشن دیتے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ’’ٹرائیکا‘‘ میں حکومت شامل نہیں ہے بلکہ بقول احسن اقبال یہ ٹرائیکا حکومت کو گرانے کے لیے وجود میں آئی ہے۔ حکومت چوں کہ جمہوری نظام کی علامت ہے اس لیے ٹرائیکا کی کوششوں سے جمہوری نظام کو خطرہ ہے۔ محترم وزیر حکومت اور جمہوری نظام کے حق میں بہت دور کی کوڑی لائے ہیں حالاں کہ جمہوری نظام میں حکومت کی مخالفت یا قانون و آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک ناپسندیدہ حکومت سے چھٹکارا پانے کی کوشش خود جمہوریت کا حصہ ہے۔ ایک منتخب جمہوری حکومت کبھی ان کوششوں کا بُرا نہیں مانتی بلکہ اپنی اصطلاح کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے موجودہ جمہوری پارلیمانی نظام کو کمزور کرنے بلکہ مسخ کرنے کی جتنی کوشش کی ہے اس کی مثال فوجی آمریتوں کے سوا کہیں نہیں ملتی۔ نااہل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کو اتنی بھی وقعت نہیں دی جتنی کہ ایک ربر اسٹمپ کو دی جاتی ہے۔ قومی اسمبلی میں ان کی پارٹی اکثریت میں تھی وہ چاہتے تو اسمبلی سے اپنے ہر عمل کی توثیق کراسکتے تھے لیکن انہوں نے اسمبلی کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا اور اسمبلی کو وزیراعظم کی حیثیت سے کسی معاملے میں بھی اعتماد میں لینا ضروری نہ سمجھا۔ وہ بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف وفاداری میں کسی سے مشاورت کیے بغیر جا پہنچے اور واپس آکر بھی انہوں نے پارلیمنٹ میں کوئی رپورٹ پیش نہیں کی۔ میاں صاحب نے اپنے چار سالہ دور اقتدار میں ایک سو کے لگ بھگ بیرونی دورے کیے لیکن مجال ہے کہ انہوں نے کسی دورے کی پارلیمنٹ سے اجازت لی ہو یا اس کے نتائج سے پارلیمنٹ کو آگاہ کیا ہو۔ پارلیمنٹ بیچاری تو یہ بھی نہیں جانتی کہ ان دوروں کا مقصد کیا تھا اور یہ دورے قومی خزانے کو کتنے میں پڑے۔ گزشتہ سال میاں نواز شریف صاحب کو عارضہ قلب لاحق ہوا، چار ماہ تک لندن میں مقیم رہے اور اپنا سیکرٹریٹ لندن منتقل کرکے وہیں سے کاروبار حکومت چلاتے رہے اور پارلیمنٹ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم۔ وہ بیچاری یہ پوچھنے کی بھی جسارت نہ کرسکی کہ وہ یہ سب کچھ کس کی اجازت سے کررہے ہیں۔ ان کا وزیر خزانہ دھڑا دھڑ قرضے لے رہا تھا اس نے ملک کو بیرونی قرضوں میں جکڑ دیا لیکن پارلیمنٹ اس کی بھی گوشمالی نہ کرسکی۔
پارلیمانی جمہوریت کی آڑ میں یہ تھا سکھا شاہی کا وہ نظام جس کا فسوں ٹوٹا ہے جو میاں نواز شریف ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کا سیاپا کررہے ہیں اور ان کے وزیر احسن اقبال ٹرائیکا کی دہائی دے رہے ہیں جو ان کے نزدیک موجودہ نظام کو لپیٹنا چاہتی ہے۔ حالاں کہ ان کی حکومت تو جمہوری نظام کا بوریا بستر کب کا گول کرچکی ہے اب وہ ملک کے عدالتی نظام پر بھی حملہ آور ہے اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو اس لیے مطلعون کررہی ہے کہ فیصلہ میاں نواز شریف کے خلاف آیا ہے اگر فیصلہ میاں صاحب کے حق میں آتا تو پھر آپ دیکھتے کہ کس طرح عدالت کے قصیدے پڑھے جاتے۔ نیب میں بھی اس لیے کیڑے ڈالے جارہے ہیں کہ وہ میاں فیملی اور اسحق ڈار کے گرد احتساب کا شکنجا کس رہا ہے۔ نئے احتساب کمیشن کی باتیں اسی پس منظر میں ہورہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت، فوج، عدلیہ اور پریس ریاست کے چار ستون ہیں لیکن (ن) لیگی حکومت نے خود کو ان ستونوں سے الگ کرلیا ہے اور باقی تین کو ’’ٹرائیکا‘‘ کی حیثیت دے دی ہے۔ جو اس کے نزدیک اس جمہوری نظام کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ ایک ٹرائیکا وہ بھی ہے جس کی نشاندہی احسن اقبال نے کی ہے لیکن ہمارے دوست کہتے ہیں کہ حکومت اگر گئی تو اپنے کرتوتوں سے جائے گی اس میں کسی ٹرائیکا کا عمل دخل نہیں ہوگا۔ رہی ٹیکنوکریٹ حکومت تو بلاشبہ یہ ایک منتخب حکومت کا نعم البدل نہیں لیکن خود عوام کی بھی تو ذمے داری ہے کہ وہ صحیح، اہل اور دیانتدار نمائندوں کا انتخاب کریں جو منتخب حکومت کی ذمے داری اُٹھا سکیں۔ جب تک عوام صحیح نمائندوں کا چناؤ نہیں کریں گے ملک ایسے ہی بحرانوں سے دوچار رہے گا۔