راز بہت اُگل چکے

543

ایک مرتبہ پھر راز اُگلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ جب متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف کراچی آپریشن شروع کیا گیا تو یہ روز اُگلنے والے روزانہ ایک نیا راز اُگل رہے تھے اور لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اب تو متحدہ کے سارے وزیر، مشیر اور ارکان اسمبلی پکڑے جائیں گے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سانحہ طاہر پلازہ اور 12 مئی کے ملزمان اور ذمے داران پکڑے جائیں گے۔ شاید وہ وقت آجائے گا جب یہ سب کراچی کے چوک چوراہوں پر لٹکے ہوئے ہوں گے۔ لیکن انکشافات فیشن بن گیا اور جن کے خلاف انکشافات ہورہے تھے وہ معافی مانگتے اور روتے ہوئے پاک صاف بن گئے اور سیاسی لانڈری کھول لی ۔ پھر دہشت گرد اور جرائم میں ملوث شخاص کو اپنی پارٹی میں لاکر پاک صاف کرنے لگے۔ اب حماد صدیقی کی گرفتاری اور کئی راز اُگلنے کی خبر کے بعد پاک صاف پارٹی کے سربراہ ملک سے نکل گئے اور راستہ صاف پاکر واپس آگئے۔ حماد صدیقی کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ اس نے بتایاہے کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کا سہولت کار کراچ ی میں ہے۔ بظاہر ملزم نے بڑے بڑے انکشافات کیے ہیں جن میں یہ انکشاف بھی ہے کہ سانحہ 12 مئی میں بھی متحدہ اور پی پی پی کے رہنما شامل تھے۔ حالانکہ یہ کوئی انکشاف نہیں ہے۔ ایک ایک آدمی کے بارے میں انکشافات پہلے ہی ہوچکے ہیں لیکن چونکہ پیچیدہ عدالتی کارروائی اور پسندیدہ گروہ تیار کرنے کی ایجنسیوں کی خواہش سب فیصلوں پر غالب رہتی ہے اس لیے اب تک کے سارے انکشافات ایک جانب رکھ کر من پسند لوگوں کو من پسند پارٹی میں بھرتی کرایا جارہاہے۔ بہ ظاہر کہا گیا ہے کہ حماد صدیقی کو جلد کراچی لایا جارہاہے اور وہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کا مرکزی ملزم ہے لیکن ایک اطلاع یہ ہے کہ وہ پہلے ہی سے گرفتار تھا۔انکشافات اور اعترافات کے اس کھیل میں اس سے اگلا مرحلہ کبھی نہیں آیا۔ کبھی انکشاف کو ثبوت کا سہارا نہیں ملتا تو کبھی اعتراف جبری نکلتا ہے یوں 12 مئی کے 50 شہدا، سانحہ بلدیہ کے 260شہدا اور ہزاروں افراد کے قتل کے سانحات پر پردہ ہی پڑا رہے گا۔ اتنے سارے انکشافات کے بعد جو صورتحال ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 28 برس ’’را‘‘ کا ایجنٹ رہنے کا اعتراف کرنے والے مصطفی کمال پی ایس پی کے لیڈر ہیں اور سب سے بڑے محب وطن ہیں۔ میئر کراچی وسیم اختر پر درجنوں مقدمات تھے وہ پاکستان واپس آکے گرفتار ہوئے اور کچھ دنوں بعد میئر بن گئے۔ انکشافات کرنے والوں نے ان کے بارے میں بھی انکشافات کیے تھے۔ بابر غوری، رؤف صدیقی، فیصل سبزواری، خود انیس قائم خانی کے خلاف مقدمات ہیں ان کے علاوہ عدالت عظمیٰ حکم دے رہی ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کو گرفتار کرکے پیش کیا جائے اور ہماری پولیس کو ڈاکٹر فاروق ستار نہیں مل رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی جرائم پیشہ کو اپنی صفوں میں جگہ نہیں دیں گے۔ انہوں نے طنزاً کہا تھا کہ پی ایس پی والے ارشد وہرہ کا وہ کام کرادیں جو ہم نہیں کراسکے۔ یعنی جرائم کی پردہ پوشی۔ تو کیا ڈاکٹر فاروق ستار اس بات سے بے خبر تھے کہ ارشد وہرہ منی لانڈرنگ کیس میں ملوث ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سارا کھیل اسی طرح جاری رہے گایہاں تک کہ 2018ء کے انتخابات آجائیں گے اور من پسند پارٹی کراچی پر مسلط کردی جائے گی۔ دو تین گروپوں کو ٹاسک دے دیا گیا ہے کہ جو خود کو سب سے زیادہ اطاعت گزار ثابت کرے گا اس کے سر پر کراچی و حیدرآباد کا تاج سجادیا جائے گا۔ پاکستانی عوام انکشافات اور اُگلے ہوئے رازوں کا چسکا لیتے رہیں گے اس سارے عمل میں ٹی وی چینلز کو مسالہ مل جائے گا لیکن بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے 260 شہدا کے اہل خانہ کو انصاف نہیں ملے گا۔ ان کو تو اب تک ٹھیک طرح سے معاوضہ بھی نہیں مل سکا یہ لوگ اپنے پیاروں کے قاتلوں کے خلاف انصاف ہوتا کیسے دیکھیں گے۔ کیا الطاف حسین کے خلاف انکشافات اور راز اُگلے جانے سے کچھ ہوا۔ الطاف حسین کو تو حکمران پاکستان نہیں لاسکے۔ اتنا ضرور ہوا کہ جن لوگوں نے الطاف حسین کو برا بھلا کہا ان کو جھاڑ پونچھ کر پاک صاف کرلیا گیا۔ تو کیا فرق پڑ جائے گا حماد صدیقی کے انکشافات سے۔ اور گزشتہ اتوار کو یہ بھی ہوا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے جلسے میں ’’را‘‘ کے ایجنٹ اور ملک کے غدار الطاف کے لیے نعرے لگتے رہے۔ کیا یہ لوگ فاروق ستار کے ساتھ ہیں اور ان کے سہارے ہی وہ انتخابات جیتنا چاہتے ہیں؟۔