ہمیں کیوں پکڑا؟

491

کرپشن کے خلاف جن نعروں کی شدت تیزی کے ساتھ کم ہوتی ہوئی معلوم ہورہی تھی اور یہ قباحت بظاہر دنیا کے لیے قابل ہضم ہوتی جا رہی تھی اب دھیمے سُروں کے یہی نعرے ایک عالمگیر تحریک میں ڈھلتے جارہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ بیتے ہوئے ماہ وسال میں اہل ثروت نے سیاست، اقتدار اور اہل اقتدار سے راہ ورسم کو اپنی دولت کے ڈھیر لگانے کے لیے استعمال کرنے کے جس ہتھیار کا بے دریغ استعمال کیا تھا اب کُند ہوتا جا رہا ہے۔ عوامی شعور میں اضافہ، میڈیا کی وسعت پزیری اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی روز افزوں صلاحیت، سوشل میڈیا جیسے عوامی اور عالمی ’’ہائیڈ پارک‘‘ کا فروغ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے جنم لینے والی سماجی اور سیاسی خرابیاں بیداری کی ان لہروں کو آگے بڑھانا اور شوریدہ سر بنانے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب برطانوی جمہوریت بادشاہت کو طاقت اور اختیار سے محروم کرتے ہوئے اپنی علامتی چھتری اور نمائشی شے بناکر پارلیمنٹ کو عوامی جذبات کے بالواسطہ اظہار کا ذریعہ بنا رہی تھی تو لندن کے ایک کونے میں ایک عام آدمی کو دل کی بھڑاس اور ضمیر کا غبار نکالنے ہائیڈ پارک میں اسپیکرز کارنر بنایا جارہا تھا تاکہ اقتدار کے ایوانوں سے دور، ناراض اور گھٹن کا شکار لوگ یہاں کھڑے ہوکر تاج برطانیہ سے پارلیمنٹ تک جس کی چاہیں خبر لیں۔ اب سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو ایک ہائیڈ پارک میں بدل کر عام آدمی کی قوت اظہار کو موثر اور نتیجہ خیز بنایا ہے۔ اس ہتھیار کو متعارف کرانے والوں کا مقصد تو نہ جانے کیا تھا مگر اس عام آدمی کی آواز میں طاقت اور تاثیر پیدا کی ہے اور اب وہ جمے جمائے نظام میں ہلچل پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو گیا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی مطلق برتری اور گلوبلائزیشن نے کرپشن کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں این جی اوز کلچر کو فروغ دے کر ترقیاتی اور شعور اورآگہی کے منصوبو ں میں ’’آدھا تمہارا آدھا ہمارا‘‘ کی ایک بے ایمان ثقافت کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہر رسم ورواج کی ایک طبعی عمر ہوتی ہے اور پھر وقت کا بدلتا ہوا دھارا اس رسم کو روند کر متروک بناتا ہوا گزر جاتا ہے اور اپنے پیچھے ایک کلچر کی اور رسم کی بنیاد چھوڑ جاتا ہے۔ عالمی سرمایہ دارارنہ نظام کی چھتر چھائے میں کرپشن کی رسم بھی اب اسی انجام کے قریب ہے۔ یہ ایک دلخراش تضاد تھا کہ اپنے معاشروں اور اپنے حکومتی نظام میں کرپشن کے معاملے پر ’’زیرو ٹالرنس‘‘ رکھنے والے مغربی ملک دوسرے معاشروں میں بالوواسطہ طور پر اس قباحت کی سرپرستی کرتے تھے۔ سویزر لینڈ کے بینک عوام کے چرائے ہوئے پیسوں کے لیے محفوظ تجوریوں کا کام دیتے رہے۔ منقولہ سے غیر منقولہ جائداد میں ڈھالنا مقصود ہوا تو برطانیہ، امریکا، دبئی، ہانکانگ، کینیڈا تک محلات اور پلازے اس کام کے لیے تیار ملتے تھے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کے جوا خانے اس کام میں معاونت کے کام آتے تھے۔ گویاکہ یہ سارا کھیل ایک ایسا گورکھ دھندہ تھا جو انسانی عقل کو دنگ کرنے کے کافی تھا۔
وکی لیکس نے عالمی تجوریوں میں نہاں دولت کے مالکوں کے چہروں کو دنیا میں متعارف ہی نہیں کرایا بلکہ کئی ایک ملکوں میں سیاسی بھونچال بھی برپا کیا۔ اسی دوران اسرائیلی وزیر اعظم اپنی رہائش گاہ پر پولیس کی تفتیش کے عمل سے گزرتے دیکھے گئے۔ ایران کے صدر حسن روحانی کے بھائی جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاتے دیکھے گئے۔ اور اب یہ لہریں سعودی عرب کی حدود کو پاٹتی ہوئی کھائی دیتی ہیں جہاں ایک شہزادے سمیت چار موجودہ اور درجنوں سابق وزرا کی گرفتاری کا واقعہ رونما ہو چکا ہے اور گرفتار ہونے والوں میں شہزادہ ولید بن طلال جیسے صاحب ثروت اور صاحب رسوخ شخص بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب میں بدعنوانیوں کے الزام میں با اثر افراد کی گرفتاریاں اور پھر ان گرفتاریوں کی تشہیر بتارہی ہے کہ سعودی عرب کے نظام پر پڑے آہنی پردے بھی گر رہے ہیں اور کرپشن کے خلاف ردعمل کی عالمی لہر یہاں بھی اپنا رنگ جمارہی ہے۔
ابھی دنیا میں وکی لیکس کے انکشافات کے بھونچال کے آفٹر شاکس جاری تھے کہ اسی ادارے نے پیراڈائز لیکس کے نام سے دنیا بھر کے بااثر افراد کی ایک اور فہرست جاری کر دی۔ جن میں اکثریت نے ٹیکس بچانے کے لیے آفشور کمپنیاں قائم کررکھی ہیں۔ پیرا ڈائز لیکس دنیا کی سیاست کا رخ کس طرح متعین کرتی ہے اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس مہم کے باعث ہونے والی سیاسی اتھل پتھل کا ایک شکار پاکستان بھی ہے۔ پاناما لیکس میں سابق وزیر اعظم نوازشریف کے خاندان کی دولت کی نشان دہی پر عمران خان کی سیاسی جدوجہد نے معاملا ت کو عدالتوں تک پہنچایا اور حکمران خاندان اپنی دولت کا ذریعہ اور جواز پیش کرنے میں ناکام ہوا۔ جواز پیش کرنے کی کوشش میں ایک کے بعد دوسری غلطی میں زمین پیروں کے نیچے کھسکتی چلی گئی یہاں تک کہ ان کی صفائی میں قطری شہزادے کی تحریری ضمانت اور گواہی بھی ناقابل اعتبار قرار پائی اور یوں عدالت نے میاں نوازشریف کو نااہل قرار دے کر اقتدار کے ایوانوں سے رخصتی کا سامان کیا۔ میاں نوازشریف نے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘؟ کے سوال کے ساتھ عوامی طاقت کا سہارا لینے کی کوشش کی مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اب بھی درپردہ ثالثی کی کوششیں جاری ہیں مگر سعودی اور امارات جیسے ملک جو مسلمان ملکوں میں اقتدار کی کشمکش کی گھتیاں ’’سب کی جیت‘‘ کے اصول کے تحت سلجھانے میں پیش پیش ہوتے تھے۔اب اپنی پالیسی بدل رہے ہیں۔ وہ کسی دوسرے ملک میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘؟ کے سوال کو جواز اور اعتبار بخش کر شہزادہ ولید کے اس سوال کو ’’مجھے کیوں پکڑا‘‘؟ سے دامن کیوں کر بچا سکتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور ان کا گھرانہ دنیا میں بدلتے ہوئے ان مناظر کا جس قدر جلدی ادراک کرلے تو اچھا ہے۔