احسن اقبال اور علّامہ اقبالؒ 

1755

سماجی ذرائع ابلاغ آج کل مطبوعہ ذرائع ابلاغ اور برقی ذرائع ابلاغ دونوں سے زیادہ ’’بلیغ‘‘ ہوگئے ہیں۔ معاشرے کے کسی بھی فرد کو دیکھ لیجیے۔ ہر شخص، ہر وقت اپنی جیب سے جوّال نکالے، سماجی ذرائع ابلاغ پر ’’وما علینا الا البلاغ‘‘ کا فریضہ سرانجام دیتا نظر آئے گا۔ ہمارے یہ ’’معاشرتی مبلغین‘‘ تو اپنا فریضہ سر انجام دے کر سو جاتے ہیں، مگر باقی سونے والوں کی نیندیں اُڑا دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک قصہ ہمارے دوست، ہمارے بھائی اور اِس پوری قوم کے (وفاقی) وزیر داخلہ برادر احسن اقبال کے ساتھ بھی ہوگیا۔ احسن بھائی جب سے وزیر داخلہ بنے ہیں (یا اُن کو ’’بنایا‘‘ گیا ہے) تب سے وہ قِسم قسِم کے داخلی دباؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ حتیٰ کہ وزارتِ داخلہ کے زیر نگیں ادارے بھی اُن پر دباؤ ڈال کر انہیں احتساب عدالت میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ اُن کی جگہ ہم ہوتے تو ہم اللہ کا شکر اد ا کرتے کہ ایسی جگہ داخل ہونے بچایا۔ مگر اُنہوں نے تو دباؤ کا شکار ہونے کے بعد ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے وزن پر مشقِ سخن شروع کردی کہ ’’مجھے کیوں نہ گھسایا؟‘‘
تازہ قصہ یہ ہوا ہے کہ ’’یومِ اقبال‘‘ کی سرکاری چھٹی منسوخ ہوئے دو برس پرانی بات ہوگئی تھی۔ وزارتِ داخلہ کے ایک ’’بزرجمہر‘‘ جناب سلمان قیوم خان (شریک معتمد قانونی) کو نہ جانے کیا سوجھی کہ احسن اقبال کے آگے ’’یومِ اقبال‘‘ کی بحالی کی تجویز (Proposal for revival of Iqbal Day) رکھ آئے۔ تجویز ہی نہیں رکھ آئے، کچھ دلائل بھی دے آئے۔ انہوں نے جو دلائل دیے وہ بزبانِ انگریزی دیے، مگر اُن کا خلاصہ ہم پیرا نمبروں کے ساتھ آپ کی خدمت میں بزبانِ اُردو پیش کیے دیتے ہیں۔ سلمان صاحب فرماتے ہیں:
۴۳۔ پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کی تاریخ میں علامہ محمد اقبال کا مرکزی کردار رہا ہے۔ انہوں نے تحریکِ پاکستان کو واضح نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے اُن کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اُن کے یومِ پیدائش کو عام تعطیل کے طور پر منایا جاتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ ۲۰۱۵ء تک جاری رہا، جس کے بعد ختم کر دیا گیا۔
۴۴۔ اگر ہم اس عظیم مفکر کی خدمات کو ایک بار پھر تسلیم کرنے کی روش اختیار کرلیں تو یہ اقدام موجودہ منظر نامے میں نہایت برمحل ہوگا اورہم نئی نسل کے سامنے علامہ محمد اقبال سے اپنی وابستگی اور اپنے عصر سے فکراقبال کی مطابقت کا پیغام دے سکیں گے۔
۴۵۔ اُمورِ بالا کو مد نظر رکھتے ہوئے جنابِ والا کی خدمت میں یہ تجویز مناسب فیصلے کے لیے پیش کی جارہی ہے کہ تخلیقِ پاکستان میں علامہ محمد اقبال کی خدمات کے اعتراف کے طورپر ۹نومبر (یومِ اقبال) کی عام تعطیل بحال کردی جائے۔ آپ کی سہولت کے لیے ایک اخباری اعلامیے کا مسودہ بھی منظوری کے لیے منسلک کر دیا گیا ہے۔
یہاں سلمان صاحب کی لکھی ہوئی ایک بات کی تصحیح ضروری ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر ۱۹۷۴ء تک علامہ اقبالؒ کے یومِ وفات ۲۱اپریل کو ’’یومِ اقبال‘‘ کے طور پر منایا جاتا تھا۔ ۱۹۷۴ء میں (بھٹو صاحب کے دور میں) ایک کمیٹی بنائی گئی، جس نے اقبالؒ کے یومِ پیدائش کے سلسلے میں بیان کی گئی متعدد تواریخ (مثلاً ۲۲فروری، مثلاً ۲۳ دسمبر وغیرہ) کو مسترد کرکے اورتحقیق کرکے اس بات پر اتفاق کیا کہ اقبالؒ کی درست تاریخ پیدائش ۹نومبر ہے۔ چناں چہ ۱۹۷۴ء سے ۲۰۱۵ء تک ۹نومبر ہی کو ’’یومِ اقبال‘‘ کی عام تعطیل ہوتی رہی۔
اب ہم واپس آتے ہیں اپنے اصل موضوع پر۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر ’’ہنگامہ جو ہے برپا‘‘ تو اس بات پر برپا ہے کہ مذکورہ بالا تجویز جب وزیر داخلہ کے حضور پیش کی گئی تو نہ جانے کس داخلی دباؤ کے تحت انہوں نے یہ تجویز اقبالؒ ہی کا ایک شعر لکھ کر مسترد کردی اور شعر بھی غلط لکھ مارا۔ اُنہوں نے لکھا:
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندۂ حُر کے لیے جہاں میں ’فراق‘
وزیر داخلہ احسن اقبال نے اپنے داخلی دباؤ کے سبب علامہ اقبالؒ کے اس مشہور شعر کے دوسرے مصرعے کو بے قافیہ ہی نہیں، بے معنی بھی کر ڈالا۔ اقبالؒ نے لفظ ’فراغ‘ استعمال کیا تھا۔ آپ،مگر، یہ رعایت دے سکتے ہیں کہ ممکن ہے احسن اقبال کا اُردو املا بچپن ہی سے غلط ہو۔
املا صحیح ہو یا غلط، برادر احسن اقبال نے جس خیال کا اظہار کیا ہے، وہ بالکل درست ہے کہ ’’میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو‘‘۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ احسن اقبال یا اُن کے پیشواؤں اور رہنماؤں کو کبھی یکم مئی ’’یومِ مزدور‘‘ کی عام تعطیل منسوخ کرنے کا خیال آیا، نہ اس کی جرأت ہو سکی، نہ انہیں اس کی تاب یا مجال یا طاقت ہے۔ غلاموں کی کیا مجال کہ وہ آقاؤں کے دیے ہوئے یومِ تعطیل کو منسوخ کر سکیں؟ ہماری غلامی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم یکم مئی کو خوب ’’فرصت‘‘ کے ساتھ گزاریں۔ ذرا کوئی ’’بندۂ حر‘‘ یکم مئی کی تعطیل منسوخ کرنے کا خیال بھی دل میں لا کر تو دیکھے۔ اس کے بعد اُسے کچھ دکھائی نہیں دے گا۔ کیوں کہ اقبالؒ اپنی اسی غزل کے مطلع میں کہتے ہیں:
ملے گا منزلِ مقصود کا اُسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
ایسا نہیں ہے کہ ’’شیر کی آنکھ‘‘ سے مسلسل دیکھنے کے سبب چیتے کی آنکھ کا چراغ گُل ہو گیا ہو۔ اقبالؒ تو اس ’’گُل چشمی‘‘ کا سبب کچھ اور ہی بتاتے ہیں:
فروغِ مغربیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحبِ مَازَاغ
پھر اقبالؒ نے اسی غزل میں غالباً کوئی سیاسی پیش گوئی بھی کر ڈالی ہے کہ:
وہ بزمِ عیش ہے مہمانِ یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثالِ ستارہ جس کے ایاغ
مغربیوں کی کتابیں پڑھنے اور اقبالؒ کے کلام سے کورذوق رہنے کا جو نتیجہ آج ظاہر ہو رہا ہے، وہ بھی اقبالؒ کی اسی غزل میں دیکھ لیجیے:
کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گُل کا سراغ
القصہ مختصر احسن اقبال اور علامہ اقبالؒ میں کوئی رشتہ اور کوئی تعلق ہو یا نہ ہو، مگر شکاگو کے شہیدوں کا یوم منانے سے ہمارے ہر ’’بندۂ حر‘‘ کا گہرا تعلق ہے۔۔۔ کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا مزاج!