اتحاد یا نئے اختلافات کا آغاز

462

گزشتہ بدھ کو کراچی اور سندھ کی سیاست میں اچانک بھونچال آگیا۔ چند دن تک ایک دوسرے کی شدید مخالف متحدہ پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی نے انتخابی اتحاد کا اعلان کردیا اور مصطفےٰ کمال اور فاروق ستار نہ صرف ایک دوسرے سے گلے ملے بلکہ کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس بھی کر ڈالی۔ لیکن یہ اتحاد بھی چند گھنٹے بعد ہی نئے اختلاف اور افتراق کا عنوان بن گیا۔ پریس کانفرنس میں اعلان کیاگیا تھا کہ عام انتخابات کے لیے نیا منشور اور نیا نشان ہوگا جس کے تحت انتخابات میں حصہ لیا جائے گا۔ لیکن ایک فوری اختلاف تو اسی وقت سامنے آگیا۔ فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم قائم رہے گی اور مصطفیٰ کمال نے فرمایا کہ یہ نام استعمال نہیں کریں گے۔ دونوں کے اس اتحاد کا نام کیا ہوگا، اس کے بارے میں کہا گیا کہ بعد میں بتائیں گے۔ اتحاد کے اعلان سے قبل ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ لیکن اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ رابطہ کمیٹی کے کئی ارکان نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی اور پاک سرزمین پارٹی سے تعلقات استوار کرنے پر کئی ارکان نے فاروق ستار اور اچانک سامنے آجانے والے اور ایم کیو ایم میں اہم منصب پر فائز ہونے والے کامران ٹیسوری پر شدید تنقید کی گئی۔ کچھ نے بائیکاٹ کیا اور کچھ خاموش رہے۔ لیکن بعد میں بولنا شروع کردیا اور گزشتہ بدھ سے اتنی بولیاں بولی جارہی ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ اس اتحاد پر پیپلزپارٹی والے بھی اپنا حصہ ادا کررہے ہیں۔ لیکن یہ اتحاد چلنے والا نہیں ہے اور رات گئے ہی فاروق ستار نے ٹوئٹ کے ذریعے اپنے اختلافات کا اظہار کردیا۔ اگلے دن جمعرات کو فاروق ستار کی پریس کانفرنس نے اس اتحاد کے تابوت میں مضبوط کیل ٹھونک دی اور مصطفےٰ کمال پر برہم ہوئے اوران پر دھوکا دینے کا الزام عاید کیا۔ لیکن فاروق ستار نے یہ دھوکا کیسے کھا لیا۔ ان کا کہنا تو یہ تھا کہ اس اتحاد کے لیے چھ ماہ سے کام ہورہا ہے۔ یہ کام کون کررہا تھا؟ کیا صرف فاروق ستار یا فنکشنل لیگ سے ایم کیو ایم میں داخل ہونے والے کامران ٹیسوری ہی اس اتحاد پر کام کررہے تھے۔ لیکن نئے اتحادی مصطفےٰ کمال کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے مہاجروں کو ذلیل کردیا۔ یہ مصطفےٰ کمال ایک دن پہلے ہی تو اعلان کررہے تھے کہ ’’ایم کیو ایم میری کمیونٹی (مہاجر) کی سب سے بڑی دشمن ہے، کھلے عام کہہ رہا ہوں کہ ایم کیو ایم کو دفن کردوں گا اور جب تک اسے زمین بوس نہیں کریں گے مہاجروں، سندھ اور ملک کا بھلا نہیں ہوگا‘‘۔ مصطفےٰ کمال کا یہ خطاب 7 نومبر کا ہے اور اگلے ہی دن 8 نومبر کو فاروق ستار اور مصطفےٰ کمال باہوں میں بانہیں ڈالے مشترکہ پریس کانفرنس میں اتحاد کا اعلان کررہے تھے۔ کیا یہ ایم کیو ایم کو زمین بوس کرنے اور اسے دفن کرنے کا حربہ تھا، نیا جال تھا یا کیا تھا؟ یاد رہے کہ یکم نومبر ہی کو امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کردیا تھا کہ ایم کیو ایم کی آپس کی لڑائی مذاق ہے، پرانی شراب نئی بوتل میں ڈال کر عوام کو دھوکا دیا جارہا ہے، چائنا کٹنگ کے موجد عوام کو کچھ نہیں دے سکتے۔ ان کی یہ بات بہت جلد حقیقت بن کر سامنے آگئی اور اتحاد کا اعلان ہوتے ہی نیا مذاق شروع ہوگیا۔ چائنا کٹنگ ہی کیا بوری بند لاشیں، بھتا مافیا اور قتل عام میں سب ہی شریک تھے جو اب نیا دھوبی گھاٹ لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بہت پہلے یہ بات سامنے آئی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ نے دونوں دھڑکوں کو انتباہ کیا تھا کہ دسمبر تک ایک ہوجاؤ۔ اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کیا فائدہ ہے یہ وہ جانے لیکن ایم کیو ایم میں آفاق گروپ یا ایم کیو ایم حقیقی بنانے میں کیا فائدہ تھا اور یہ آگے کیوں نہیں چل سکا۔ مختلف دھڑوں میں اتحاد کی کوشش بظاہر تو بہت اچھی بات ہے لیکن یہ کام کسی خفیہ طاقت کے ذریعے ہورہا ہو تو معاملہ مشکوک ہوجاتا ہے۔ فی الحال تو ’’مائنس الطاف‘‘ ہی میں کامیابی ہوئی ہے اور وہ بھی مکمل طور پر نہیں کیونکہ گزشتہ اتوار کو فاروق ستار کے جلسے میں غدار الطاف کے چاہنے والے بھی موجود تھے۔ مہاجر دھڑوں میں عارضی اتحاد کی خبر پر پاکستان سے فرار ہونے والے آمر پرویز مشرف کے منہ میں بھی پانی آرہا ہے اور انہیں یہ خوش فہمی ہوگئی ہے کہ وہ کراچی آکر متحدہ ایم کیو ایم کی قیادت سنبھال سکتے ہیں۔ یہ ایک اور المیہ ہوگا۔ تاہم پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ ان کی ہمدردیاں ایم کیو ایم نہیں مہاجروں کے ساتھ ہیں اور ایم کیو ایم نے مہاجروں کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ وہ بھی اس طویل عرصے میں یہ بھول گئے کہ جب وہ برسر اقتدار تھے ان کی صرف ہمدردیاں ہی نہیں پوری طاقت ایم کیو ایم کے ساتھ تھی، مہاجروں کے ساتھ نہیں۔ 12 مئی 2007ء کو انہوں نے ایم کیو ایم کے ذریعے کراچی کی سڑکوں پر مہاجروں کو مروایا اور ایم کیو ایم کو عوامی طاقت قرار دیا۔ انہیں اب تو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ پرویز مشرف کو گنتی کے چند لوگوں کے سوا کراچی کیا پورے پاکستان میں کوئی قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے چار، چھ لوگوں کو ملاکر جو نام نہاد پارٹی بنائی ہوئی ہے بس اسی میں خوش رہیں۔ اسی اثناء میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ فاروق ستار نے نہایت خاموشی کے ساتھ ایم کیو ایم کا نیا منشور تیار کر کے الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیا ہے۔آخر میں فاروق ستار نے اعلان کیا کہ وہ سیاست سے دستبردار ہو رہے ہیں جس پر وہی مناظر دہرائے گئے جو الطاف کے استعفے کے اعلان پر سامنے آتے تھے ‘ نہیں بھائی نہیں ‘ نہیں۔ اور فاروق ستار بھی یہی کریں گے ۔