پاناما لیکس سے پیراڈائز پیپر تک

375

بین الاقوامی تحقیقاتی صحافیوں کی تنظیم (ICIJ) نے پاناما لیکس کے بعد اس کرپشن زدہ دنیا میں پیراڈائز پیپرز کے نام سے ایک دوسرا دھماکا کردیا ہے جس میں ایک کروڑ چونتیس لاکھ دستاویزات سب کے سامنے کھول کر رکھ دی ہیں جو قرضوں کے معاہدوں، ٹرسٹ کی تشکیل، ای میلز، مالیاتی بیانات وغیرہ پر مشتمل ہیں جن کا تعلق دنیا کے امیر و کبیر اور بااثر طبقات سے ہے اور ان میں بڑے بڑے نام سامنے آئے ہیں اور ان ناموں میں ملکہ ایلزبتھ دوم، اردن کی ملکہ نور، سابق وزیراعظم کینیڈا جین کریشان، امریکا کی کابینہ کے تیرہ وزرا جن میں قابل ذکر وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر تجارت لوئیس لوس، جاپان کے سابق وزرائے اعظم، پاکستان کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو سابق وزیر خزانہ اور وزیراعظم شوکت عزیز، صدر الدین ہاشوانی، میاں منشا اور حسین وارڈ کے نام سامنے آئے ہیں بھارت بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے لیکن سب سے اہم وزیر برائے ہوابازی کا نام پیراڈائز پیپرز میں شامل ہے۔
ان کاغذات میں نام آنا لازمی طور پر کسی کو مجرم ثابت نہیں کرتا اور آف شور کمپنی کا مالک ہونا بذاتِ خود جرم نہیں ہے لیکن اس کا امکان ضرور ہے کہ ان آف شور کمپنیوں تک رقم شفاف اور قانونی بینکنگ چینل کے بجائے کسی غیر قانونی طریقے سے منتقل کی گئی ہوگی۔ ہوس زر اکثر انسانوں کے لیے نہ ختم ہونے والی ہے چناں چہ لوگ اپنے اثر و رسوخ، اختیار، طاقت، چالاکیوں اور خاندانی دولت کے بعد رشوت، کمیشن، اسمگلنگ، منشیات فروشی، اسلحہ فروشی، قانونی و مالیاتی دستاویزات میں ہیر پھیر کے ذریعے دولت بٹورنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کا اگلا مرحلہ اس ناجائز دولت کو چھپانے اور ٹیکس سے بچنے کا آتا ہے۔ اس طرح کے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے اور اُن کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس دنیا میں کچھ ایسے علاقے یا ممالک سامنے آئے جنہیں ٹیکسوں کی جنت (Tax Haven) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں ٹیکسوں کی شرح صفر ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح ان علاقوں میں مخصوص قانونی فرم موجود ہوتی ہیں جو ان ہوس زر کے پجاریوں کو قانونی راستے بتاتی ہیں تا کہ ان لوگوں کا سرمایہ محفوظ رہے، اس پر ٹیکس لاگو نہ ہو اور ان سرمایہ داروں کی شناخت بھی چھپی رہے۔ عام طور پر ایسے لوگ کوئی آف شور کمپنی بناتے ہیں یا شیل کمپنی (Sheel Company) قائم کرتے ہیں۔ مقصد اس کا یہ ہوتا ہے کہ ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی آمدنی سے کوئی کاروبار کیا جائے یا سرمایہ کاری کی جائے۔ دوسرے الفاظ میں اس دولت کو سود پر کہیں اور لگایا جائے اس طرح ان لوگوں کی دولت میں تیز رفتاری سے مزید اضافہ ہونے لگتا ہے اور وہ ٹیکس سے بھی آزاد ہوتی ہے۔
ان آف شور کمپنیوں میں دنیا کی کتنی دولت موجود ہے اس پر مختلف رپورٹیں سامنے آچکی ہیں مثلاً چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکسیشن کے مطابق 7.6 ٹریلین امریکی ڈالر کے برابر دولت ان کمپنیوں میں موجود ہے۔ ایک اور اسٹڈی کے مطابق امریکا کی 60 بڑی کمپنیاں اور ان کے 166 ارب ڈالر سال 2012ء میں ان آف شور کمپنیوں میں لگے ہوئے تھے اور اس طرح ان کمپنیوں نے اپنے منافع کا 40 فی صد حصہ ٹیکس سے بچاتے ہوئے ٹیکسوں کی جنتوں میں منتقل کردیا۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق دنیا کے مجموعی ٹیکسوں کی رقم میں سے ٹیکس بچاتے ہوئے 190 ارب ڈالر سے لے کر 255 ارب ڈالر ان آف شور کمپنیوں میں بھیجے گئے۔
لیکن اب معاملہ رپورٹوں سے آگے آچکا ہے۔ عالمی تحقیقاتی صحافیوں کی تنظیم ICIJ نے جس کا صدر دفتر واشنگٹن میں ہے اور اس میں 70 ممالک کے 200 صحافی شامل ہیں اور جس نے اپنے کام کا آغاز 1997ء میں کیا تھا اب وہ ایک آزاد، خود مختار، غیر منافع بخش ادارے کے طور پر اس کام میں لگی ہوئی ہے۔ ڈیڑھ سال پہلے پاناما پیپرز یا پاناما لیکس کے نام سے کروڑوں کی تعداد میں اس طرح کی دستاویزات دنیا کے سامنے پیش کی گئی تھیں اور پیراڈائز پیپرز میرے خیال سے اس کی دوسری قسط ہے۔
اس کرپشن، لوٹ مار، اسمگلنگ، رشوت خوری، منافع خوری کے نتیجے میں دنیا میں امیر اور غریب کا فرق بڑھ رہا ہے، ایک طرف امیر و کبیر لوگوں کے پاس عالیشان محلات ہیں، سفر کے لیے اپنے جہاز ہیں اور دوسری طرف غریب لوگ دو وقت کھانا نہ ملنے کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ گلوبل ویلتھ رپورٹ 2015 کے مطابق دنیا کی 71 فی صد آبادی کے پاس دنیا کی کل دولت کا صرف 3 فی صد ہے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق دنیا کی پچاس فی صد دولت ایک فی صد لوگوں کے پاس ہے۔ اصل میں عالمی قیادت اور عالمی اداروں کی ذمے داری ہے کہ بین الاقوامی طور پر مالیاتی شعبہ میں بہتر قانون سازی کی جائے اور غیر قانونی طور پر رقم کی منتقلی کے تمام طریقوں کو روکا جائے۔ دوسری طرف ایسے ممالک یا ایسے علاقے جو غیر قانونی دولت مندوں کی پناہ گاہ کا کام کرتے ہیں ان کی شفافیت چھپاتے ہیں اور ناجائز دولت کو پھلنے پھولنے کا موقع دیتے ہیں اس کی حوصلہ شکنی کی جائے اسی طرح کرپشن کا یہ دریا جو دنیا کے ہر ملک میں پوری آب و تاب سے بہہ رہے ہے اس کی رفتار میں کمی آسکتی ہے۔