حالی اور مسدسِ حالی

1370

حبیب الرحمن
خواجہ الطاف حسین حالی ، ہندوستان میں ’’اردو‘‘ کے نامورشاعراورنقاد گزرے ہیں۔حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ انکے والد کا نام خواجہ ایزد بخش تھا – ابھی 9 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ بڑے بھائی امداد حسین نے پرورش کی۔ اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن مجید حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی۔ 17 برس کی عمر میں ان کی مرضی کے خلاف شادی کر دی گئی۔ اب انہوں نے دلی کا قصد کیا اور 2 سال تک عربی صرف و نحو اور منطق وغیرہ پڑھتے رہے۔ حالی کے بچپن کا زمانہ ہندوستان میں تمدن اور معاشرت کے انتہائی زوال کا دور تھا۔ سلطنتِ مغلیہ جو 300 سال سے اہل ِ ہند خصوصاََ مسلمانوں کی تمدنی زندگی کی مرکز بنی ہوئی تھی، دم توڑ رہی تھی۔ سیاسی انتشار کی وجہ سے جماعت کا شیرازہ بکھر چکا تھا، اور انفرادیت کی ہوا چل رہی تھی۔
1856ء میں ہسار کے کلکٹر کے دفتر میں ملازم ہوگئے لیکن 1857ء میں پانی پت آ گئے۔ 3-4 سال بعد جہانگیر آباد کے رئیس مصطفٰی خان شیفتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے۔ نواب صاحب کی صحبت سے مولانا حالی کی شاعری چمک اٹھی۔ تقریباَ 8 سال مستفید ہوتے رہے۔ پھر دلی آکر مرزا غالب کے شاگرد ہوئے۔ غالب کی وفات پر حالی لاہور چلے آئے اور گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت اختیار کی۔ لاہور میں محمد حسین آزاد کے ساتھ مل کر انجمن پنجاب کی بنیاد ڈالی یوں شعر و شاعری کی خدمت کی اور جدید شاعری کی بنیاد ڈالی۔
4سال لاہور میں رہنے کے بعد دلی چلے گئے اور اینگلو عربک کالج میں معلم ہوگئے۔ وہاں سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی اور ان کے خیالات سے متاثر ہوئے۔ اسی دوران1879ء میں ’’مسدس حالی‘‘ سر سید کی فرمائش پر لکھی۔ ’’مسدس‘‘ کے بعد حالی نے اِسی طرز کی اوربہت سی نظمیں لکھیں جن کے سیدھے سادے الفاظ میں انہوں نے فلسفہ، تاریخ، معاشرت اور اخلاق کے ایسے پہلو بیان کئے جن کو نظر انداز کیا جارہا تھا۔
ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد پانی پت میں سکونت اختیار کی۔ 1904ء میں ’’شمس العلما کا خطاب ملا ، 31 دسمبر 1914ء کو پانی پت میں وفات پائی۔
سرسید جس تحریک کے علمبردار تھے حالی اسی کے نقیب تھے۔ سرسید نے اردو نثر کو جو وقار اور اعلیٰ تنقید کے جوہر عطا کئے تھے۔ حالی کے مرصع قلم نے انہیں چمکایا۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے اردو ادب کو صحیح ادبی رنگ سے آشنا کیا بلکہ آنے والے ادیبوں کے لیے ادبی تنقید، سوانح نگاری، انشاپردازی اور وقتی مسائل پر بے تکان اظہار خیال کر کے بہترین نمونے یادگار چھوڑے۔
اردو شاعری میں مولانا حالی کا اعلی ترین کارنامہ ان کی طویل نظم ’’مدوجزر اسلام‘‘ ہے جو عام طور پر ’’مسدس حالی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ نظم اس قدر مقبول ہوئی کہ اس نے مقبولیت اور شہرت کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ کہا جاتا ہے کہ کئی سال تک برصغیر کے طول و عرض میں جو کتاب قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ شائع ہوئی وہ ’’مسدس حالی‘‘ تھی۔ بقول سر سید احمد خان، ’’بے شک میں اس کا محرک ہوں اور اس کو میں اپنے اعمال حسنہ میں سے سمجھتا ہوں کہ جب خدا پوچھے گا کہ دنیا سے کیا لایا۔ میں کہوں گا کہ حالی سے مسدس حالی لکھوا کر لا یا ہوں اور کچھ نہیں‘‘
سرسید کی یہ بات اتنی سچی ہے جیسے دن ہو یا رات۔ میں نے جب ہوش کی آنکھ کھولی، یہ بات سن 1957ء کی ہے، تو اپنے گھر میں اپنی نانی، نانا، خالہ خالو اور بہت سارے افراد کو اسے بآواز بلند پڑھتے پایا۔ میری والدہ کے چچا کو تو یہ حفظ تھی۔ حالی کی ’’مسدس‘‘ (مد و جزر اسلام) ہو یا حفیظ جالندھری کا شاہ نامہ اسلام، بلا شبہ یہ دونوں کتابیں مقدس کتابوں کا سا درجہ رکھتی تھیں لیکن آج ان کتابوں کا نام تک کوئی نہیں جانتا۔
ناگفتہ بہہ صورت حال اور کڑے وقت میں کسی کا بھی قوم کیلئے اٹھنا اور مثبت پیغام دینا مومنانہ کام ہے اور یہ کام وہی انجام دے سکتا ہے جس کا ایمان پختہ ہو اور کڑے سے کڑے وقت میں حق اور سچ ہی بیان کرنا جانتا ہو اگر ہم آج سے اس وقت کا موازنہ کریں تو الحمد اللہ ہم ایک مسلمان ملک میں رہتے ہیں جس میں حق بات کہنا کوئی دشوار بات نہیں لیکن ایک ایسا ملک جس میں نہ صرف مسلمان اقلیت میں تھے بلکہ ان کے چاروں جانب دشمن ہی دشمن تھے، ایک جانب ہندو اور دوسری جانب سکھ اور اس پر قیامت یہ کہ حکومت فرنگیوں کی جن کے سینے میںدل کی جگہ پتھر رکھا ہوا تھا، ان کے سامنے پیغام بیداری موت کا پروانہ بھی ثابت ہو سکتا تھا لیکن یہ بات حق گوئی اور بے باکی کو مہمیز دیتی ہے اور اس کی جذبات میں اور بھی حرارت کا سبب بنتی ہے۔ انگریز بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر ان کے ناپاک مقاصد میں اگر کوئی مزاحم ہو سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف مسلمان ہی ہو سکتے ہیں۔ آنے والے وقت نے یہ ثابت بھی کیااور مسلمانوں کے ہاتھوں انگریزوں کو سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایسے دور میں مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی تحرووں اور شاعری سے مسلمانوں کے دلِ مردہ میں وہ روح پھونکی کہ ہرجانب انقلاب کی نوید سنائی دینے لگی۔
’’مسدس حالی‘‘ ایک ایسی نظم ہے جس میں مسلمانوں کے ماضی کی جھلکیوں کا عکس ملتا ہے۔ اس نظم میں مولانا حالی نے نہ صرف قوم کی سابقہ عظمت اور شان و شوکت پربحث کرتے ہوئے موجودہ دور میں ان کی غیرت کو للکار ہے۔ بلکہ اس کو تاریخی واقعات کے ساتھ بیان کرکے ان کی عہد بہ عہد ترقی اورتنزل کے اسباب اور وجوہات کو بھی بیان کیا ہے۔ جس سے مولانا حالی کے تاریخ اسلام کے گہرے مطالعے اور آگاہی کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے عہد بہ عہد تاریخی واقعات کو نمونے کے طور پر نظم کا روپ دے کر مسلمان قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر شروع کے اشعار میں عرب کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ ایسا سچا ہے کہ جب سے قلم نے اس منظر کو قلمبند کیا اس وقت سے آج تک وہ اس عہد کے ہر نقشہ کھینچنے والے کے لئے نمونے کا کام دیتا ہے۔
عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ ایک جزیرہ نما تھا
زمانے سے پیوند اس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا نہ کشور کشا تھا
تمدن کا اس پر پڑا نہ تھا سایہ
ترقی کا تھا وہاں قدم تک نہ آیا
اس طرح ایک اور شعر ملاحظہ ہو جس سے اس وقت کی مذہبی رسومات اور لوگوں کی ایماں و یقین پر بخوبی روشنی پڑتی ہے۔
قبیلے قبیلے کا بت اک جدا تھا
کسی کا ہبل تھا کسی کا صفا تھا
آج نہ جانے کتنے ممالک ہیں اور کتنی تنظیمیں جو انسانی حقوق کی علمبردار بنی نظر آتی ہیں۔ ان کی چہرے دہرے ہی نہیں، ہزاروں روپ رکھتے ہیں۔ انسانی حقوق کا شور مچانے والوں کے چہروں پر چڑھے اگر ایک ایک نقاب کو نوچ نوچ کر الگ کی جائے تو ہر چہرہ بھیڑیا صفت ثابت ہوگا۔ یہ سارے امن و آشتی کا سبق دینے والے اندر سے اتنے ظالم اور جابر ہیں ہیں کہ فرعون و ہامان کی داستانیں بھی ان سے شرماتی ہیں۔ یہ ایک بٹن دباکر پوری انسانیت کو تباہ کر دیتے ہیں اور انسانی کھوپڑیوں کے نہ صرف مینارے بناتے ہیں بلکہ ان میں شرابیں تک پینے سے گریز نہیں کرتے۔ حالیؔ کے دور میں یہی مناظر تھے اور آج بھی وہی سارے مناظر ہیں۔ آج بھی یہی بظاہر ترقی یافتہ، تہذیب یافتہ اور انسانی حقوق کی علمبرداری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے جس طرح انسانی خون سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور انسانی گوشت اور ہڈیوں کو نوچتی ہیں اْن کے چہرے کو بڑے واضح طور پر کچھ اس طرح بے نقاب کیا ہے۔
وہ قومیں جو ہیں آج غم خوار انساں
درندوں کی اور ان کی طینت تھی یکساں
جہاں عدل کے آج جاری ہیں فرماں
بہت دور پہنچا تھا واں ظلم و طغیاں
بنے آج جو گلہ باں ہیں ہمارے
وہ تھے بھیڑیے آدمی خوار سارے
ہمارے اسلاف نے حالی کی طرح تاریخی واقعات کی روشنی میں ان اقوام کے حقیقی چہرے کا پردہ فاش کر دیا تھا۔ لیکن مسلمان آج بھی ان کے چبائے ہوئے نوالوں کی امید میں دست نگر بنی بیٹھی ہے۔ ان کی تہذیب و تمدن مسلمانوں کے لئے وبال ہے۔ پھر بھی نہ جانے کیوں ہر مسلمان ان کا گردیدہ ہے۔ اگرچہ انہوں نے مسلمانوں ہی کے ورثے کو بروئے کار لاتے ہوئے آج ترقی کے تمام زینے طے کر لئے ہیں۔ کل کا جو ’’کل‘‘ تھا وہ آج ’’کل‘‘ جیسا ہی نہیں اس سے بھی بھیانک شکل میں موجود ہے۔ وہی خون کی ہولیاں، وہی ظلم و ستم ، وہی مسلمان کشی اور مسلمانوں میںوہی پہلے جیسی بے حسی اور ایک دوسرے سے کٹا چھنی۔ حالی کی اُس دور میں بے شک نہایت ضرورت تھی لیکن آج اس سے کہیں زیادہ حالی کی ضرورت ہے۔اس طویل نظم ’’مسدس حالی‘‘ میں مولانا حالی نے مسلمانوں کو شاندار ماضی کی تاریخ کواور ماضی کے کارہائے نمایاں کو بیان کرکے مسلمان قوم کو غیرت دلانے کی سعی کی ہے۔ خلافت اندلس کے حوالے سے مسلمان قوم کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں اور خلافت اندلس کی جھلک ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔
ہوا اندلس ان سے گلزار یکسر
جہاں ان کے آثار باقی ہیں اکثر
جو چاہے کوئی دیکھ لے آج جا کر
ہے یہ بیتِ حمرا کی گویا زباں پر
کہ تھے آل عدنان سے میر ے بانی
عرب کی ہوں میں اس زمیں پر نشانی
مگر صد افسوس کہ اب پورے عالم اسلام میں مسلمانوں میں غیرت جگانے والا کوئی ایک رہبر یا مصلح دکھائی نہیں دے رہا۔ ہر جانب ہو کا عالم ہے اور ایک قحط الرجال کی سی کیفیت ہے۔ مسلمان ممالک میں مسلمان ہی مسلمانوں کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔ رات دن ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ بمباریاں کررہے ہیں۔ ان کو اس بات میں بھی کوئی شرم نہیں کہ ان کی زد میں محض ان کے دشمن ہی نہیں، معصوم بچے، عورتیں، بوڑھے اور بے قصور بھی آرہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ ہسپتال تک ان کی وحشیانہ کارروائیوں سے محفوظ نہیں۔ وحشت و بر بریت کا ایک بازار ہے جو ہر سو گرم ہے لیکن غیرت و حمیت ہے کہ بیدار ہو کر نہیں دے رہی۔
مولانا حالی نے اسلام کی تعلیمات کا ذکر بھی تفصیل کے ساتھ کیاہے۔ آپ ﷺ نے انسانوں اور بالخصوص عرب کی وہ سر زمین جہاں جہالت کے اندھیارے پھیلے ہوئے تھے اور انسان جانوروں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے تھے ان کو ایسا انسان بنادیا جس کی مثال نہیں ملتی اور آج کی دنیا بھی انھوں انسانوں کے حوالے سے اپنی زندگی کے روزوشب کو مثالی بنانے میں ان ہی نفوس کی مثالیں اور حوالے دینے پر مجبور ہے۔ اگر زمین کو جنت نظیر بنانا ہے اور اس کو ہر فتنہ و فساد سے بالاتر رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ اسی بنی ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کو تازہ کیا جائے اور اس بنی ﷺ کی سنت اور اس کے اصحاب کے مثالی کردار کو عام کیا جائے بصورت دیگر دنیا جنت نظیر کبھی نہیں بن سکتی البتہ دوزخ ضرور ثابت ہوسکتی ہے۔ آپ ﷺ کی آمد اور ان کے تعلیمات کے چھاجانے کو حالی کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں:
گھٹا اک پہاڑوں سے بطخا کے اْٹھی
پڑی چار سو یک بیک دھوم جس کی
کڑک اور دمک دور دور اس کے پہنچی
جو ٹیگس پہ گرجی تو گنگا پہ برسی
رہے اْس سے محروم آبی نہ خاکی
ہر ی ہو گئی ساری کھیتی خدا کی
اگر تاریخ کا صدق دل کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو اس بات سے ترقی یافتہ سے ترقی یافتہ قوم بھی انکار نہیں کر سکتی کہ وہ آج ترقی کے جس مقام پر ہیں ان کے ہر علم کی اساس مسلمانوں نے ہی فرا ہم کی۔ نئی نئی دنیائیں مسلمانوں نے ہی دریافت کیں۔ عدل و انصاف کا اعلیٰ ترین معیار مسلمانوں نے ہی فراہم کیا۔ حکومت کس طرح کی جاتی ہے، یہ مسلمانوں نے ہی دنیا کو سکھایا۔ دل کس طرح جیتے جاتے ہیں اس کی تعلیم مسلمانوں نے ہی دی۔ دنیا والوں کو ریاضی، فلسفہ ، طب ، کیمیا، ہندسہ ، ہیئت ، سیاحت ، تجارت ، معماری ، نقاشی ، اور جراحی جیسے علوم و فنون سے آگا ہ کیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ مسلمان آگے چل کر خواب غفلت کا شکار ہو گئے اور عیاشی میں پڑکر تحقیق سے کنارہ کش ہوئے اور دوسری اقوام سے مغلوب ہوتے چلے گئے جس کا سبب علامہ اقبال کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ:
آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
مسد س میں حالی نے قوم کی ترقی و عروج کو نہایت موثر انداز میں بیان کرنے کے بعد اس بات کو بڑے دکھ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ مسلمانوں نے تنزلی پر قناعت کر لی ہے اور غفلت کے ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس طرح وہ خود تو ذلیل ہوئے ہی ہیں لیکن انہوں نے اپنی بے حسی کی وجہ سے ہادی برحق کے دین کو بھی بدنام کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
پر اس قوم غافل کی غفلت وہی ہے
تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں پر رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
(جاری ہے)