والدین! نعمت عظیم ہیں

937

محمد عبیر خان ، گلشن اقبال،کراچی
Ubairkan@live.com
والدین در حقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں انسان کا وجود والدین کا رہین منت ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا،جب تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک مت کہو،سور ہ بنی اسرائیل کی آیت مبارکہ میں والدین کے ساتھ خصوصاً اس وقت حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے، جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں کیوں کہ اس عمر میں انسان عموما چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اس کی طبیعت میں بے قراری و بے چینی پیدا ہوجاتی ہے لہٰذا والدین کو اس کیفیت میں اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو والدین اپنی نیند کی پرواہ کیے بغیر اپنے لخت جگر کی نیند کی پروا کرتے ہیں اپنی بیماری کی پروا کیے بغیر رات کے اندھیرے میں بھی اپنے لخت جگر کو سلانے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے لخت جگر کو ہر طرح کا آرام دیتے ہیں اللہ رب العزت نے بھی ماں کے قدموں تلے جنت کو رکھ دیا۔ اگر جنت کمانی ہے تو اپنے والدین کی خدمت کرو‘ والدین جو حکم دیں ان کو بجالاؤ ان کے آگے اف تک نہ کرو، جب وہ باہر سے آئیں تو ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاؤ جس طرح کئی مقام پر والدین کے ساتھ ادب سے پیش آنے اور ان کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ا سی طرح جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ان کے لیے سرمایہ آخرت نیک اولاد ہی ہوتی ہے جو اِن کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اولاد کو اپنے والدین کے حق میں رحمت و مغفرت کی دعا بھی سکھائی،ترجمہ، اے میرے ربّ میرے والدین پر رحمت کاملہ نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے مجھے پالا یعنی میرے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا۔
والدین ا للہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی قدر کی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے۔یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ ماں کے بعد وہ باپ ہی کی شخصیت ہے جو اولاد کی حفاظت اور پرورش وپرداخت میں اثر انداز ہوتی ہے، تعلیم وتربیت دینے میں اور اس کو ہر طرح سے نکھارنے میں باپ کا بڑاہاتھ ہوتاہے اس کی پائی پائی کی کمائی کا بیش تر حصہ اولاد کے لیے صرف ہوتا ہے اسی طرح اولاد کے غم اور ان کی خوشی سے خوشی کو حقیقی معنی میں محسوس باپ ہی کرتا ہے۔ ماں کے بعد باپ بھی اپنی زندگی کاانمول حصہ اولاد کی نذر کردیتاہے اے میرے پروردگار! تو مجھے اور میرے ماں باپ اور جو بھی ایمان کی حالت میں میرے گھر میں آئے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے ماں اور پھر باپ یہ دونوں اس دنیا میں نہایت قیمتی جوہر ہیں اور جنت میں داخل ہونے کے اسباب بھی ہیں۔
باپ جو صبح سے شام تک اولاد کی پرورش ان کی تربیت کے سلسلہ میں بے چین رہتا ہے وہ اس خیال میں محو رہتا ہے کہ اخراجات کی تکمیل کیسے ہو باپ کا مقام بیان کرتے ہوئے آپ ؐ نے فرمایا (باپ )جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے ایک موقعے پر ایک صحابی رسول آپ ؐ کی خدمت میں شکایت کرنے لگے کہ میرے والد میرے مال سے خرچ کرنا چاہتے ہیں ایسے موقع پر میں کیا کروں آپؐ نے جواب دیاتو او رتیرا مال تیرے والد ہی کے لیے ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ والدین کی ناقدری وبائی شکل اختیار کرتی جارہی ہے والدین کی نافرمانی عام سی بات ہوگئی والدین کے ساتھ بد سلوکی اس حد تک عام ہوگئی کہ والدین کو گھر سے باہر نکالا جارہا ہے جس کی وجہ سے اولڈ ہاؤس کی کثرت ہورہی ہے آپ ؐنے جو علامات قیامت بیان کی تھیں کہ قرب قیامت میں والدین کی نافرمانی عام ہوگی خدا نے کسی کو تین چیزیں چھوڑنے کی اجازت نہیں دی ہے امانت ادا کرنے کی خواہ نیک آدمی کی ہو یا بدکار کی عہد پورا کرنے کی خواہ نیک سے کیا ہو یا بد سے اور باپ کے ساتھ احسان و نیکی کرنے کی خواہ وہ نیک ہوں یا بداور باپ کے ساتھ نیکی کرو باپ کے ساتھ ر ہنے اور زندگی گزارنے میں جہاں تک ہوسکے نیکی کرو اور انہیں اس چیز کے مانگنے کی زحمت نہ دو کہ جس کی ان کو ضرورت ہے خواہ وہ مستغنی اور بے نیاز ہی ہوں اور قرآن مجید کی آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب چیزوں کو خرچ نہیں کروگے نیکی تک نہیں پہنچ سکو گے، تمہارے اوپر تمہارے باپ کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ تمہاری اصل وبنیاد ہے اور تم اس کی شاخ ہو اگر وہ نہ ہوتے تو تمہارا وجود نہ ہوتا پس جب تم اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھو کہ جو تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردے تو اس وقت تم یہ خیال کروکہ اس نعمت کا سبب تمہارا باپ ہے اور اس پر خدا کا شکرادا کرو اور خدا کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمردراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھادیا جائے اس کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لیے خوشخبری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی فرمانبردای کرنے والا بنائے اور ہماری اولاد کو بھی ان حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنائے۔