گلشن ناز،حید ر آباد
علامہ اقبالؒ شاعر مشرق حکیم امت کی فکر کا سر چشمہ فکر اسلامی کا ایک روشن نمونہ ہے وطنیت اور قومیت پر علامہ اقبالؒ کی فکر،فکر اسلامی کے کلیہ ء آفا قی کے عین مطابق ہے جن میں کوئی اخفا ء نہیں۔’’ولایت پادشاہی علم اشیاء کی جہانگیری یہ سب کیا ہے فقط اک نقطہء ایماں کی تفسیریں‘‘ جب ہم علامہ اقبالؒ اور پاکستان یا نظریہ پاکستان کی بات کرتے ہیں تو علامہ اقبالؒ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے پہلی بار ایک مسلمان ریاست کا نہ صرف خواب دیکھا بلکہ اس کی تعبیر کے لیے ہر اس سوچ اور فکر کو پروان چڑھایا جس سے اس خواب کی تعبیر کے لیے راہ ہموار ہو۔انہو ں نے یورپ کی تہذیب کا بغور جائزہ لیکر یہ بات واضح طور پر اپنے کلام میں جابجا بیان فرمائی کہ ہماری قومیت اسلامی بھائی چارے کے ان متصدق اصولوں پر قائم ہے جنہیں ہادء عالمؐ نے دنیا کے میں قائم کیے اسی پوری امت کے ایمان کے اشتراک کو بنیاد بناکر انہوں نے کہا ۔
’’چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘
اگر ہم نظریہ پاکستان کو علامہ ؒ کی نظر سے دیکھتے ہیں تو علامہ اقبال ؒ کی فکر کے تانے بھی اس حوالے سے دو قومی نظریہ سے جا ملتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے تمام زوال و پستی اور غلامی کا واحد حل’’وحدت ملی‘‘میں تھا اسی لیے انہوں نے کہا!
’’جسے نان جوئیں بخشی ہے تونے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر‘‘
اور واضح طور پر مسلمانان ہند سے یہاں تک کہہ دیا کہ !
’’فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں‘‘
علامہ اقبالؒ تمدنی اعتبار سے ایک ایسا معاشرہ چاہتے تھے جہاں کا موجودہ قوانینِ انصاف،فکر و انداز، طرز و عمل، جذبات و احسات اور ارادے قرآنی احکامات کے ما تحت و مظاہر ہوں۔جہاں مساوات اخوت اور یکجہتی کے زندہ پیکر نمونے مثلِ راہ بنے رہیں کیوں کہ ان کے نزدیک اسلامی نظریہ حیات ہی کلی طور پر مکمل نظریہ حیات ہے اسی لیے انہوں نے ناصحانہ انداز میں سمجھایا!
’’اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے ہے مستحکم جمعیت تری‘‘
انہوں نے وطنیت اورقومیت اور قوم پرستی کو مسلمانوں کے لیے کفن قرار دیا ان کے نزدیک مسلمان اپنے ایمان کی بنیاد پر ایک کنبہ کا فرد ہے چاہے وہ کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو ان کی اسی نمایاں فکر نے مغربی قوم پرستی کو مسلمانوں میں پھیلنے نہیں دیا۔