اسٹیل مل ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی، ٹرین مارچ اور بھوک ہڑتالی کیمپ

348

اسٹیل مل وطن عزیز کا سب سے بڑا فولادی صنعت کا ادارہ ہے، جس کی بندش کو دو سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے۔ مقام افسوس یہ ہے کہ اسٹیل مل کو اس نا گفتہ بہ صورت حال کا سامنا، گزشتہ و موجودہ جمہوری دور میں کرنا پڑا۔ اسٹیل مل ایک وسیع و عریض رقبے پر محیط صنعتی ادارہ ہے۔ 8126 ایکڑ پر مشتمل رہائشی علاقہ ہے جس کی آبادی دو لاکھ افراد کے قریب ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پیداواری عمل جولائی 2015 ء سے مکمل طور پر بند ہے۔ پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے، ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں اور طبی و سفری سہولتیں انتہائی محدود کردی گئیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ملازمین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ جو افراد ملازمت مکمل کر چکے ہیں یا انتقال کر گئے ہیں ان کے واجبات کی ادائیگی کئی سال گزرنے کے باجود نہیں کی جا سکی ہے۔
حاضر سروس یا ریٹائرڈ ملازمین ہوں یا انتقال کر جانے والے ملازمین کے ورثاء، سب کے چہروں پر مایوسی و پژمردگی نمایاں ہے۔ جب سے اسٹیل مل کے حالات خراب ہوئے ہیں، اسی وقت سے اسٹیل مل سے منسلک ہر گھرانے کے معاشی حالات دگردگوں ہیں۔ والدین نے اولاد کے مستقبل کے حوالے سے جو سنہرے خواب دیکھے تھے وہ سب ادھورے اور آنکھوں ہی میں رہ گئے ہیں۔ جہاں ملازمین کے بچے اہلیت اور اعلی تعلیم کا ذوق و شوق ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ وہیں ان گنت بیٹیاں مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی ہیں۔ طبی سہولتوں کے خاتمے کے بعد ملازمین، تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور کئی سال سے تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے مناسب علاج کرانے سے بھی قاصر ہیں۔ اسکول فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے والدین بچوں کو اسکول نہ بھیجنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری حضرات بھی پریشان ہیں کہ کب تک ادھار پر کاروبار کو جاری رکھ سکیں گے۔ 2010ء سے الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا اسٹیل مل کے مسائل کو اجاگر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔ لیکن حکمرانوں اور ارباب اختیار کے کانوں پر جوں رینگ کے نہیں دے رہی۔ مقامی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی چپ کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں۔ ایک عرصے سے اسٹیل مل کی نج کاری کے دعوے کیے جارہے ہیں لیکن ہنوز دلی دور است۔ کبھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسٹیل مل کی زمین پیچ کر اور نج کاری کے بعد ملازمین کو واجبات کی ادائیگی ممکن بنائی جائے گی لیکن یہ سارے دعوے صرف زبانوں اور کاغذوں تک ہی محدود ہیں۔ وفاقی حکومت جب بھی اسٹیل مل کی زمین اونے پونے داموں بیچنے کی بات کرتی ہے تو سندھ حکومت بھی جو اسٹیل مل کے معاملے پر محو نیند ہے، فوراً بیدار ہوکر زمین بیچنے کے عمل کی مخالفت میں بیان داغ کر اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہوجاتی ہے۔
اسٹیل مل کی زبوں حالی اور بندش کا المیہ جو اب ایک انسانی المیے کا روپ دھار چکا ہے، ہر محب وطن، ذی عقل و شعور ملازم کے لیے لمحہ فکر بن چکا ہے۔ اس نا گفتہ بہ صورت حال میں اسٹیل مل ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے متفقہ فیصلہ کیا کہ حکومت اور ارباب اختیار کو معاملے کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے ٹرین مارچ کیا جائے اور ڈی چوک میں مظاہرے کے ساتھ نیشنل پریس کلب کے سامنے تین دن علامتی بھوک ہڑتال کا اہتمام کیا جائے۔ تین اکتوبر کو کینٹ اسٹیشن، کراچی سے اسٹیل مل ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنما، کارکنان اور ملازمین اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے اور اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے بذریعہ ٹرین راول پنڈی پہنچے۔ ٹرین مارچ کے دوران ملتان اور لاہور کے علاوہ دیگر ریلوے اسٹیشنوں پر ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں، کارکنان اور ملازمین کا مختلف سیاسی جماعتوں اور مزدور تحاریک کے رہنماؤں اور کارکنوں کی جانب سے پرتپاک خیر مقدم کیا ۔ جو نہایت حوصلہ افزاء اقدام ہے اور ٹرین مارچ کی کامیابی کی نوید ہے۔ ان دنوں اسٹیل مل جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنما، ارکان اسمبلی اور سیاست دانوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں اور حتمی لائحہ عمل طے کرنے میں مصروف ہیں۔ مجوزہ لائحہ عمل کے مطابق ڈی چوک پر مظاہرہ کیا گیا اور 8 تا 10 اکتوبر نیشنل پریس کلب کے سامنے 3روزہ علامتی بھوک ہڑتال کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی ان کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ حکومت اور ارباب اختیار اسٹیل مل کی بندش کے معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور جلد از جلد اسٹیل مل کی بحالی، ملازمین کے حقوق، ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی یکمشت ادائیگی، تنخواہوں میں اضافے اور طبی سہولتوں کی مکمل فراہمی پر فوری توجہ دیں تاکہ وطن عزیز کا سب سے بڑا فولادی صنعت کا ادارہ ملک کی ترقی میں ایک بار پھر اپنابھرپور کردار ادا کرسکے۔
سیّد محمد اشتیاق