فٹ پا تھ اسکو ل

281

محمد اکرم ہزاروی
وہ کہتے ہیں نا کہ ’’ شو ق کا کوئی مول نہیں ہوتا‘‘ آپ نے اکثر لوگوں کو دیکھا ہو گا کسی کوپرانے زما نے کے سکے جمع کرنے کا شوق ہے تو کوئی گھر میں پرندے پالے ہوئے ہے۔ کوئی دنیا گھومنے کا شوق رکھتا ہے تو کسی کو پڑھانے کا شوق جنون کی حد تک ہے۔ ہم میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو قلم کار بننے کا شوق رکھتے ہیں، ایسا ہی ایک شوق اور جنون ہمارا موضو ع ہے۔ اگر آپ کو کبھی کلفٹن جانے کا اتفاق ہو تو آپ دیکھیں گے کہ کلفٹن فلائی اوور کے نیچے 15بیس بچوں کا اسکول لگتا ہے۔ اس اسکول میں پڑھنے والے وہ غریب بچے ہیں جو دن کو کچرا جمع کرتے ہیں اور دو پہر سے شام تک اس اسکول میں آجا تے ہیں۔
’’ فٹ پا تھ اسکو ل‘‘ کی طرف سے ان بچوں کو کتابیں اور کاپیاں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ تمام طلبہ کو روزانہ 50روپے بھی دیے جاتے ہیں۔ اس اسکول کی منتظم ہیں سیّدہ انفا س علی شاہ اور این جی اوکا نام ہے ’’اوشین ویلفیئر آرگنا ئیز یشن‘‘۔ فٹ پاتھ اسکول کی پرنسپل سیّدہ انفاس علی شاہ کا سب سے بڑا ہدف کلفٹن کے ان غریب بچو ں کو زیو ر تعلیم سے آراستہ کر نا ہے۔ جو کلفٹن کے پوش علاقے میں تعلیم حاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ان بچوں میں سے کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو کوئی انجینئر، کوئی فوج میں جانا چاہتا ہے، تو کچھ کا خواب اسی طر ح کا ادارہ چلا نے کا ہے۔ یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکو ل پرنسپل سمیت تمام اساتذہ خود مختلف جامعات کے طالب علم ہیں جو اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تعلیم کو عام کر نے کے جذبے کے تحت رضا کارانہ طور پر یہاں کام کررہے ہیں۔
سیّدہ انفاس علی شاہ کو اس طرح کا ادارہ چلانے کا خیال کیسے آیا: اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ مجھے اس طرح کا اسکول چلانے کا خیال اس وقت آیا جب پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا اور میں نے سوچا کہ گلی کوچو ں میں آوارہ گھومنے والے ان غریب بچوں کو تعلیم دینی ہے۔ کل کلاں یہ بچے بھی ان مٹھی بھر دہشت گردوں کے نرغے میں نہ چلے جا ئیں۔ کیوں کہ ان جیسے ہی بچوں کو اغوا اور زیا دہ پیسوں کا لالچ دے کر دہشت گردتنظیمیں استعمال کرتی ہیں۔ جب یہ تعلیم پا کر معاشرے کے کار آمد اور باوقار شہری ہو ں گے تو دہشت گرد کس طرح ان کو استعمال کر سکیں گے۔ سیّدہ انفاس علی شاہ لائق صد مبارک ہیں کہ انہوں نے ایک سنجیدہ مسئلے کو لیا۔ یہی نہیں بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنا رہی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہمارے ہاں انتہا پسندانہ رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے۔ طالبانائزیشن کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ان لوگو ں کے گھروں میں بہن، بھائی یا ما ں بیمار ہے یا ان کے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ آج تک فوج، ایف سی، رینجر ز اور پولیس نے جتنے لوگوں کو بھی مارا ہے اس کے ردّعمل میں بھی دوسرا بھائی یا رشتہ دار کلاشنکوف اٹھالیتا ہے۔ یقیناًاس میں کئی بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں….. یہ کہا ں کا انصاف ہے کہ وردی کے نشے میں جس کو بھی چا ہا ’’ ڈاکو اور دہشت گرد‘‘ قرار دے کر مار دیا جائے۔ ماورائے عدالت آج تک بلوچستان خیبرپختونخوا، سند ھ بالخصوص کراچی میں جتنے بھی قتل ہوئے ہیں۔ یہ طالبانائزیشن پیدا کر نے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اِن کاؤنٹر کے نام پر یہ دھما چوکڑی اب بند ہوجانی چاہیے، نیکٹا کی فہرست میں درج تما م 63 کالعدم جماعتوں کے سرکردہ لوگوں کا اگر آپ ریکارڈ اُٹھا کر دیکھیں توا ن میں سے اکثر لوگ معاشرے کے نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ کسی کا باپ موچی ہے تو کسی کا ڈرائیور …… کوئی بس کنڈیکٹری کرتا ہے تو کسی کا با پ ٹھیلا لگاتا ہے۔ انتہا پسندانہ رجحانات میں اضافے کا ایک سبب یہ ہے کہ معاشرے کے نظر انداز، ما یوس، غریب اور محرو م لو گ جب اپنے مسائل کو لے کر اپنے علاقے کے تھانے، نا ظم اور کونسلر کے پاس جاتے ہیں تو انہیں مایوسی ہوتی ہے کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ جاتی امرا، بنی گالا اور بلاول ہاؤس میں تو ایک عام آدمی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ تو پھر معاشرے کے دھتکارے ہوئے ان لوگوں کو مولوی فضل اللہ، قاری شاکر، بیت اللہ محسود، صو فی محمد، منگل باغ جیسے لوگو ں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ٹی ٹی پی اور دیگر کالعدم جماعتوں کی ٹاپ کلاس قیادت کا قرب بھی حاصل ہوتا ہے۔ پیسا بھی ملتا ہے اور جنتّ میں جانے کی بشارت بھی ملتی ہے۔
یہ میں بڑے وثوق اور اعتماد سے کہہ رہا ہوں کہ اگر آج بھی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کوئی بیت اللہ محسود کھڑا ہوجائے اور بندوق اُٹھانے کا اعلان کر دے تو شام تک ہزاروں لوگ اس کی بیعت کر چکے ہو ں گے۔ اگر ہمیں اس مائنڈ سیٹ کو ختم کرنا ہے تو ہمیں انتہا پسندانہ رحجانات کے حامل نوجوانوں کو معاشرے سے دور نہیں کرنا، بلکہ آہستہ آہستہ قومی دھارے میں لانا ہے۔ ہمیں ’’مریض‘‘ سے نفرت نہیں کرنی ’’مر ض‘‘ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ ہمیں لوگو ں کو تعلیم، روزگار اورصحت کی سہولت ان کی دہلیز پر پہنچانی ہوں گی اگر اس طرح سے غریب اور محروم طبقوں کو نظر انداز نہ کیا جائے تو کیا وجہ ہے کہ لوگ بندوق اُٹھائیں۔ حکو مت کی ’’رٹ‘‘ کو چیلنج کریں۔