بدقسمتی سے آج کردوں کی علیحدگی کے لیے سب سے توانا آواز اسرائیل ہی کی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے 1954ء میں لکھا تھا کہ ’’عالمِ عرب میں مختلف اقلیتوں کے دل میں علیحدگی کے جذبات کو تقویت دینا، ان سے علیحدگی و آزادی کی جدوجہد کروانا، ان کے دلوں میں ’اسلامی مظالم‘ سے نجات حاصل کرنے کی تمنا پیدا کرنا ہی اصل میں وہ کام ہے، جس سے ان علاقوں کا امن و امان تباہ کیا (اور خود محفوظ رہا) جاسکتا ہے‘‘۔
نفرت، تعصب، حسد اور لالچ ہمارے ازلی دشمن شیطان کے بنیادی ہتھکنڈے ہیں۔ لیکن اولادِ آدم ہے کہ مسلسل انھی خطائوں کی مرتکب ہوکر تباہی کے راستے پر چلی جارہی ہے۔ تعصب اور لالچ افراد و اقوام کی نامرادی کی بنیاد بن رہے ہیں۔ ابلیس ایک طرف ان کے زہریلے بیج بورہا ہے اور دوسری طرف ان فصلوں سے فائدہ سمیٹنے والے خناسوں کو شہ دیتے ہوئے، پہلے سے منقسم اُمت کو نت نئے تعصبات کی نذر کرتا چلا جارہا ہے۔ صدیوں پرانے مسلکی تنازعات کی بنا پر نفرت کے الائو مزید بھڑکائے جارہے ہیں۔ ایک ایک مسلک یا فقہ کے ماننے والوں کو نسلی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جارہا ہے۔ ان میں سے بھی کوئی اختلافی بنیاد نہ ملے تو ریاستوں کے مابین سیاسی اختلافات ہی کو جنگوں کا بہانہ بنادیا جاتا ہے۔
خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اُس وقت کے بعض مسلم حکمرانوں کو شاہ بلکہ شہنشاہ بننے کا لالچ دے کر اپنے ناپاک منصوبے نافذ کیے گئے اور پھر وفادارانہ وابستگی کے وعدے پر پورے خطے کو چھوٹی چھوٹی متحارب ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا۔ تقسیم کرنے والے چاہتے تو اس وقت خطے میں پائی جانے والی بڑی ’کرد‘ آبادی کا بھی ایک الگ ملک بنادیتے، لیکن اصل ہدف علاقے یا عوام کا مفاد نہیں، فتنے کاشت کرنا تھا۔ کرد علاقے کو چار ممالک ترکی، شام، عراق اور ایران میں بانٹ دیا گیا، اور پھر گزشتہ پوری صدی ان کے دلوں میں ’کرد‘ شناخت کی پرستش راسخ کی گئی۔ اس جذبۂ پرستش میں شدت پیدا کرنے کے لیے مختلف مراحل میں اور مختلف حکمرانوں کے ذریعے ان کے حقوق بھی سلب کروائے گئے، اور ترقی کے خواب دکھا کر ان کے ہاتھوں میں بندوق تھما دی گئی۔
٭کردستان کا پس منظر:
کرد مسئلے کا جائزہ لیں تو درج ذیل اہم حقائق سامنے آتے ہیں:
دنیا میں کرد آبادی کے بارے میں مختلف دعوے کیے جاتے ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق ان کی تعداد تقریباً 37 ملین (3 کروڑ 70 لاکھ) ہے۔ جن میں سے زیادہ (ایک کروڑ50 لاکھ) ترکی میں رہتے ہیں، جو ترک آبادی کا تقریباً 20 فی صد ہیں۔
٭ ترکی:
خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کرنے والے سیکولر ترکی کے بانی مصطفی کمال پاشا نے اپنا پورا نظام ترک قومیت، ترک تفاخر اور لادینیت پر استوار کیا۔ اس پالیسی نے ایک جانب اسلامی شناخت اور شعائر کو مسخ کرتے ہوئے، مختلف قومیتوں کو اکٹھا رکھنے والی مضبوط بنیاد ڈھادی۔ دوسری جانب کردوں سمیت تمام قومیتوں کی زبان، سیاسی سرگرمیوں اور علاقائی رسوم و رواج پر بھی کڑی پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کے دلوں میں ایک احساسِ محرومی ابھارا۔ اس پالیسی کے خلاف مختلف اوقات میں کردوں کی مختلف تحریکیں جنم لیتی رہیں، جن میں سے الشیخ سعید پیران کی تحریک نمایاں ہے۔ 1977ء تک خفیہ رکھی جانے والی دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ یہ تحریک بنیادی طور پر خلافتِ عثمانیہ بحال کرنے کی تحریک تھی۔ لیکن ان کے حامی اور مددگاروں کی غالب تعداد کرد آبادی پر مشتمل تھی، کیوں کہ خلافتِ عثمانیہ کے زیرسایہ رہتے ہوئے کرد آبادی کو کامل حقوق حاصل تھے۔ مصطفی کمال پاشا کی افواج نے سعید پیران کو کرد آبادی کے بڑے شہر ’دیار بکر‘ ہی میں محصور کردیا۔ ارمنی اور شرکسی اقوام نے بھی ان کی مدد کی، لیکن اتاترک نے اس تحریک کو بری طرح کچلتے ہوئے، 30 جون 1925ء کو سعید پیران کو پھانسی چڑھا دیا۔ اس لیے جدید کرد تاریخ میں ان کا نام ایک علامت (symbol) کی حیثیت اختیار کرگیا۔
ترکی میں کرد تحریک بظاہر ختم ہوگئی، لیکن کئی مراحل کے بعد 1978ء میں 30 سالہ باغی رہنما عبداللہ اوجلان کی صدارت میں ’پارٹی کارکراں کردستان ‘ (PKK)کی صورت میں دوبارہ سامنے آئی۔ یہ جماعت 80 کے عشرے میں خوفناک مسلح کارروائیوں کے ذریعے ترکی سے علیحدگی اور کردستان کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے لگی۔ ان مسلح کارروائیوں میں 40ہزار سے زائد انسان لقمۂ اجل بن گئے۔ ترک دستاویزات کے مطابق اس بدامنی کے نتیجے میں 500 ارب ڈالر سے زیادہ کے مالی نقصانات ہوئے۔ عبداللہ اوجلان نے لبنان اور شام میں مسلح تربیتی کیمپ قائم کیے، جو 1998ء میں ترکی کے دبائو پر بالآخر ختم کرنا پڑے۔ فروری 1998ء میں ترک خفیہ ادارے اوجلان کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے گرفتار کرکے ترکی لے گئے۔ عدالت نے اسے سزائے موت سنائی جو بالآخر عمر قید میں بدل دی گئی۔
۔2014ء میں اوجلان نے جیل سے اپنے پیغام کے ذریعے ترکی کے ساتھ 30 سالہ مسلح تصادم ختم کرنے اور اپنی جدوجہد پُرامن رکھنے کا اعلان کیا۔ ملک میں نئی کرد سیاسی جماعت وجود میں آئی۔ ایک جماعت پر عدالت نے پابندی لگادی تو دوسری وجود میں آگئی، جو اس وقت پارلیمنٹ کی اہم سیاسی جماعت ہے۔ لیکن بعض گروہ اب بھی مختلف مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی سمیت دنیا کے کئی ممالک نے ’پی کے کے‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
٭ ایران:
ایران میں بھی مختلف ادوار میں کرد آبادی نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے نام پر علیحدگی کی کوششیں کیں۔ 22 جنوری 1946ء کو تو انھوں نے عراقی کرد رہنما ملا مصطفی البارزانی سے مل کر ’مہاباد‘ کے نام سے اپنا الگ ملک بنانے کا اعلان کردیا۔ قاضی محمد اس کے سربراہ بنائے گئے، لیکن یہ ریاست 11 ماہ سے زیادہ نہ چل سکی۔ ایرانی حکومت نے اسے کچلتے ہوئے 31مارچ 1947ء کو قاضی محمد کو پھانسی دے دی۔ 60 اور 70 کے عشرے میں ایرانی کردوں نے عراقی کرد تحریکوں کے ساتھ مل کر پھر اپنے آپ کو مجتمع کرنے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
۔1979ء میں انقلابِِ ایران کے بعد انھیں پہلے سے بھی زیادہ سختی سے کچل دیا گیا۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے ان کے خلاف اعلانِِ جہاد کرتے ہوئے 1982ء تک جاری رہنے والی کارروائیوں کے ذریعے ان کی آواز تقریباً خاموش کرادی۔
٭ شام :
شام میں بھی کرد آبادی کو مختلف مسائل کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ زبان اور تاریخی ورثے کو محو کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں اور ہزاروں کی تعداد میں افراد کو بے گھر بلکہ ملک بدر بھی کیا گیا۔ اسد خاندان کے 40 سال سے طویل عرصے کے ظلم و ستم کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی تو کرد گروہوں نے بھی مختلف شہروں پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی الگ شناخت متعارف کروائی۔ کرد پرچم لہرانے اور الگ ریاست کے نعرے بلند ہونے لگے۔
٭عراق:
عراق میں کرد مسئلے کا تسلسل نسبتاً تفصیل سے دیکھنا ضروری ہے، کیوں کہ وہاں نہ صرف 25 ستمبر 2017ء کو ہونے والے ریفرنڈم کے ذریعے علیحدگی کا فیصلہ کن قدم اٹھایا جاچکا ہے، بلکہ عالم اسلام کے کئی ممالک کے خلاف بھی انھی خطوط پر منصوبہ سازی جاری ہے۔ دیگر علاقوں کی نسبت عراقی کردوں کی صورتِ حال بہتر رہی۔ ان کا وجود تسلیم کیا گیا۔ ان کی زبان پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ 1958ء میں عراق میں بادشاہت کے خاتمے اور جمہوریہ عراق کے اعلان کے بعد مزید مراعات ملیں۔ ان کے ذرائع ابلاغ، تعلیمی ادارے اور سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں۔ کردستان کے موجودہ صدر مسعود البارزانی کے والد ملا مصطفی البارزانی اور ان کے خاندان کو سوویت یونین سے واپس عراق آنے کی اجازت دی گئی۔ وہ 16اپریل 1959ء کو سوویت سفینے پر بصرہ بندرگاہ پہنچے تو ان کا بڑے پیمانے پر استقبال کیا گیا۔ عراقی فضائیہ کے طیاروں نے انھیں سلامی دی۔ بعد ازاں ان کے اور ان کے خاندان کے لیے بڑے بڑے وظائف جاری کرتے ہوئے، انھیں تمام تر رہایشی اور سفری سہولیات فراہم کی گئیں۔عراقی وزیراعظم عبدالکریم قاسم اور ملا مصطفی البارزانی کے درمیان یہ گرم جوش تعلقات عراق میں امن و استحکام کی نوید سنانے لگے۔ لیکن دو برس کے اندر اندر ہی مختلف اندرونی و بیرونی قوتوں نے غلط فہمیوں کے پہاڑ کھڑے کرتے ہوئے ملک کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ 23 اپریل 1961ء کو عبدالکریم قاسم نے عراقی وزارت دفاع میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ: ’’برطانوی سفارت خانے نے تخریبی کارروائیوں اور مفاد پرست عناصر کی پشتی بانی کرتے ہوئے فتنہ جوئی کے لیے تقریباً 5 لاکھ دینار خرچ کیے ہیں‘‘۔ عراقی سوشلسٹ پارٹی نے بھی اپنے ایک دستاویزی بیان میں انکشاف کیا کہ: ’’جون 1961ء کے دوران ایران میں امریکی سفیر نے دیگر امریکی سفارت کاروں اور عسکری ماہرین کے ساتھ مل کر کرد علاقوں کے کئی دورے کیے ہیں‘‘۔ شاہِ ایران نے بھی جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے اپنے آقائوں کا حقِ نمک ادا کیا۔
اس خانہ جنگی کے دوران 8 فروری 1963ء کو وزیراعظم عبدالکریم قاسم کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ بعث پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ کردوں نے انقلاب کی حمایت کی اور کچھ عرصے کے لیے لڑائی رک گئی، لیکن جلد ہی دوبارہ شروع ہوگئی۔ اس ساری جنگ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اُس زمانے میں عراق کے ساتھ تیل کے معاہدوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا بھی تھا۔ 11ستمبر 1961ء سے شروع ہونے والی یہ لڑائی مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی 1970ء میں کردستان کی داخلی خودمختاری کے معاہدے پر آکر تھمی۔
کرد قوم پرستی کی راکھ تلے دبی چنگاریاں گاہے گاہے شعلۂ جوالا بن کر لاتعداد انسانی جانیں بھسم کرتی رہیں۔ اس دوران مختلف انقلابات بھی آتے رہے۔ 1979ء میں صدام حسین نے بعثی حکومت کے لیڈر کی حیثیت سے عراق کا اقتدار سنبھالا اور کئی مواقع پر کرد آبادی کے خلاف بے محابا قوت استعمال کی۔ ایران عراق جنگ کے اختتامی مرحلے پر ایرانی سرحد پر واقع حلبچہ نامی قصبہ، ایرانی قبضے سے چھڑواتے ہوئے اس پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی انھی کارروائیوں کا حصہ ہے، جس سے بیک وقت ساڑھے پانچ ہزار سے زائد کرد شہری موت کے منہ میں چلے گئے۔ بعد کے برسوں میں ان کیمیائی اثرات کی وجہ سے مزید کئی ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ صدام حکومت کا الزام تھا کہ یہ حملہ وہاں سے پسپا ہوتی ہوئی ایرانی افواج نے کیا ہے۔ حملہ جس نے بھی کیا ہو، لیکن اس کے نتیجے میں خطے کے تمام کردوں کے دل میں تعصب کی گرہ مزید مضبوط ہوگئی۔
۔1990ء میں عراقی صدر صدام حسین سے کویت پر چڑھائی کا ارتکاب کروایا گیا۔ اس کی آڑ میں عرب سرزمین پر امریکی افواج کی آمد کے بعد سے عراق میں ایک نیا منظرنامہ تشکیل پانے لگا۔ تیل کی وافر دولت ہونے کے باوجود پورے ملک میں تباہی و بدحالی عروج کو چھونے لگی۔ پہلے کویت کی آزادی اور پھر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) تیار کرنے کا الزام لگاتے ہوئے، عراق کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جانے لگا۔ اپریل 1991ء سے اقوام متحدہ کے ذریعے عراق کے وسیع علاقوں پر فضائی پابندیاں عائد کردی گئی تھیں۔ ان پابندیوں کا بظاہر مقصد شمال میں کردوں اور جنوب میں شیعہ آبادی کا تحفظ قرار دیا گیا۔ لیکن عملاً ان فضائی پابندیوں کی آڑ میں برطانوی اور امریکی فضائیہ، عراقی فضائی حدود پر قابض ہوگئی۔ اسی عرصے میں کرد ملیشیا ’پیش مرگہ‘ نے اربیل اور سلیمانیہ سے عراقی افواج کو بے دخل کرتے ہوئے اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ پھر مئی 1991ء میں کرد پارلیمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے عام انتخابات کروا دیے گئے۔ مسعود البارزانی کی جماعت کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (KDP) کو 8.50 فی صد اور جلال الطالبانی کے کرد قومی اتحاد PUK (Patriotic Union of Kurdistan) کو 2.49 فی صد ووٹ ملے۔
۔1996ء میں اقوام متحدہ نے عراقی تیل کی قیمت کا 31 فی صد حصہ کرد علاقوں کے لیے ضبط کرنے کی قرارداد منظور کرتے ہوئے، ’تیل کے بدلے خوراک‘ کا منصوبہ نافذ کردیا۔ دونوں کرد رہنمائوں مسعود البارزانی اور جلال الطالبانی کے مابین اختلافات اور جھڑپوں کی طویل تاریخ تھی۔ 1998ء میں امریکا نے دونوں کو واشنگٹن میں جمع کیا اور ان کے مابین جامع امن معاہدہ طے کروا دیا۔ عراق سے مسلسل جنگ، چہار اطراف سے محاصرہ، اس کے بیرونی اکائونٹس پر تسلط، تباہ کن اسلحہ کا الزام، ایک کے بعد دوسری پابندی، مسلسل نگرانی و تلاشی، ساتھ ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری تھیں، جب کہ دوسری جانب عراق ہی کے کرد علاقوں کی مکمل سرپرستی، وافر مالی امداد اور اس پورے عرصے میں تقریباً کامل امن و امان… ایک ہی ملک میں دو مختلف ریاستوں کا نقشہ واضح کرتا چلا جارہا تھا۔
۔2003ء کے اوائل میں صدام حسین حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے امریکی افواج نے پورے عراق پر قبضہ کرلیا۔ پھر اپنی مرضی کا سیاسی نظام وضع کرتے ہوئے کرد اور شیعہ آبادی کو اقتدار سونپ دیا۔ 2004ء میں دستور ساز اسمبلی اور 2005ء میں عام انتخابات بھی کروادیے۔ اہلِِ سنت آبادی کے بڑے حصے نے دونوں انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ امریکی سفیر پال بریمر نے ملک میں ’نیا نظام‘ متعارف کروایا، جس کے مطابق ملک کا صدر کردی النسل، وزیراعظم شیعہ اور اسپیکر اہلِ سنت میں سے ہونا طے کیاگیا۔ عراق کی تمام مسلح افواج کو تحلیل کرتے ہوئے، نئی افواج ترتیب دینے کا اعلان کیا گیا۔ البتہ کرد ملیشیا پیش مرگہ کے بارے میں طے پایا کہ اسے تحلیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی کتاب: My Year in Iraq(عراق میں میرا سال) میں بریمر نے عراقی اور کرد رہنمائوں سے ملاقاتوں کی تفصیل لکھی ہے کہ انھوں نے کس طرح جلال الطالبانی کو عراق کی اور مسعود البارزانی کو کردستان کی صدارت کے لیے آمادہ کیا۔ بدقسمتی سے طالبانی کو صدر مملکت کا عہدہ دیا جانا یا دیگر کرد نمائندوں کو اہم مرکزی مناصب سونپنا، عراق کو متحد رکھنے کے لیے نہیں، بلکہ اسی ہدف کے لیے تھا کہ وہ فیصلہ سازی کے اہم مراکز میں بیٹھ کر کردستان کو الگ کرنے کا عمل تیز اور پھر مکمل کریں۔
۔2005ء میں منتخب کی جانے والی پارلیمنٹ کے ذریعے عراق کا نیا دستور بنایا گیا اور اس کے مطابق کردستان کو داخلی خودمختاری کے درجے سے اُٹھاکر ’کردستان ریجن‘ قرار دے دیا گیا۔ دستور کی شق 53 کے الفاظ ہیں کہ: ’’عراق، کردستان ریجن کی حکومت کو ایک قانونی حکومت تسلیم کرتا ہے۔ یہ ریجن اس سرزمین پر واقع ہے جو 19 مارچ 2003ء سے پہلے دہوک، اربیل، سلیمانیہ، کرکوک، دیالی اور نینویٰ کے اضلاع پر مشتمل اور اسی حکومت کے زیر اختیار تھی‘‘۔ اب وہاں اپنے طور پر تیل کی تلاش کا کام مزید تیز کردیا گیا۔ اپنی الگ وزارت خارجہ کے ذریعے بیرونی دنیا سے تعلقات قائم اور معاہدے کیے جانے لگے۔ عراقی پرچم کے بجائے اور کہیں ساتھ ساتھ، کردستان کا پرچم لہرایا جانے لگا۔ اپنا قومی ترانہ متعارف کروا دیا گیا۔ اسی طرح کردستان کی الگ کرنسی اور پاسپورٹ کی تیاری شروع ہوگئی۔ 2007ء میں امریکی افواج نے کردستان کے دفاع اور امن و امان کی ذمہ داری مکمل طور پر کردستان ریجن کی حکومت کے سپرد کرتے ہوئے وہ علاقہ خالی کردیا۔ 2009ء میں تیل برآمد کرنا شروع کردیا گیا۔ ۲
۔2014ء میں کردستان حکومت نے داعش کے قبضے سے بچانے کا دعویٰ کرتے ہوئے عراق میں تیل کے اہم مرکزی شہر کرکوک کو بھی اپنے انتظام میں شامل کرلیا۔ اس طرح عراقی تیل کے تقریباً ایک تہائی ذخائر کردستان کے زیر اختیار آگئے۔ عالمی رپورٹیں اعتراف کرتی ہیں کہ یہ علاقہ تیل کے سمندر پر تیر رہا ہے۔ اس علاقے میں زمین کے اندر پائے جانے والے تیل کی مقدار کا اندازہ 54ارب بیرل لگایا جاتا ہے۔ امریکا کی مشہور کاروباری شراکت دار کمپنی ’بلومبرگ‘ (Bloomberg) کے مطابق کردستان ریجن صرف کرکوک کے کنووں سے 6 لاکھ بیرل تیل روزانہ برآمد کررہا ہے۔ اس اثنا میں تیل کی معروف عالمی کمپنیوں: امریکی ’اکسن‘ (Exxon)، فرانسیسی ’ٹوٹل‘(Total )، امریکی ’شیورون‘ ( Chevron)، روسی ’گیس پروم‘ (Gas Prom) سمیت تیل کے سب اہم سوداگر کردستان میں آن براجمان ہوئے۔ شیورون نے گزشتہ دو برس سے وہاں اپنا کام بند کررکھا تھا، حالیہ ریفرنڈم سے ایک ہفتہ قبل نئے معاہدے کے تحت پھر واپس آگئی۔ یہاں گیس کے ذخائر کا اندازہ 5.66 کھرب میٹر مکعب لگایا گیا ہے۔ روسی کمپنی ’گیس پروم‘ نے بھی اپنے سابقہ معاہدوں کے علاوہ حالیہ ریفرنڈم سے چند روز قبل، وہاں 4ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے۔اس تاریخی و سیاسی سفر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کے حصے بخرے کرنے کے منصوبے کس قدر طویل مدتی سازشوں کے ذریعے بالآخر حقیقت بنادیے جاتے ہیں۔ 25ستمبر کو کردستان میں کرایا جانے والا ریفرنڈم تو محض ایک رسمی کارروائی تھی۔ البتہ ریفرنڈم کے بعد کے حالات بتا رہے ہیں کہ اپنوں کی منافقت اور دشمنوں کی سازشیں ایک طرف اور تدبیر الٰہی کا ایک اشارہ دوسری طرف۔ 25 ستمبر کو یک طرفہ طور پر ریفرنڈم کروانے کی دیر تھی کہ خطے میں سردمہری کے شکار کئی مسلم ممالک میں تحرک پیدا ہوا۔
ایران کی جانب سے شام میں بشارالاسد کی بھرپور حمایت کیے جانے پر ترکی، ایران تعلقات میں بہت گرم جوشی نہ رہی تھی۔ کردستان ریفرنڈم کے بعد، پہلے ایرانی ذمہ داران نے ترکی کا دورہ کیا، پھر ترک افواج کے سربراہ خلوصی آکار اور 4اکتوبر کو خود ترک صدر طیب ایردوان ایران آئے، عسکری اور حکومتی ذمہ داران سے مفصل مذاکرات کیے اور اعلان کیا کہ: ’’دونوں ملک کسی صورت عراق کو تقسیم کرنے اور کردستان کو الگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ خطے کے تقریباً تمام ممالک کی جانب سے ریفرنڈم مسترد کردیے جانے پر عالمی قوتوں نے بھی بظاہر اس کی مخالفت کردی۔تیل کے وسیع ذخائر، بڑی آبادی، وسیع رقبہ (72 ہزار مربع کلومیٹر)، دریائے دجلہ و فرات اور زرخیز سرزمین، کردستان کے مثبت و مضبوط پہلو ہیں۔ لیکن کمزور پہلوئوں میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اسے کوئی سمندری ساحل میسر نہیں ہے۔ خشکی میں گھرے اس علاقے کو اپنا تیل بیچنے کے لیے عراق، شام یا ترکی کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ وہ اب بھی جو تیل برآمد کررہا تھا، ترکی میں بچھائی گئی ’جیہان‘ نامی پائپ لائن کے ذریعے ہی بھیجا جا رہا تھا۔ ریفرنڈم کے فوراً بعد ترکی اور ایران نے، فضائی اور برّی حدود بند کرتے ہوئے کردستان کے دونوں فعال ایئرپورٹ (اربیل، سلیمانیہ) مفلوج کردیے۔ زمینی راستوں سے بھی انسانی ضرورت کی انتہائی ناگزیر اشیا کے سوا ہر شے کی نقل و حمل روک دی۔ اور سب سے اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ عراقی فوج نے ایرانی عسکری دستوں کے تعاون اور ایرانی القدس بریگیڈ کے جنرل قاسم سلیمانی کی سرپرستی میں کارروائی کرتے ہوئے کرکوک جیسا اہم علاقہ کردستان سے واپس لے لیا۔ جواب میں کرد مزاحمت تقریباً ناقابلِ ذکر تھی۔
ریفرنڈم کے اگلے ہفتے (4اکتوبر2017ء) جلال الطالبانی، دنیا سے رخصت ہوگئے۔ تعزیت کے بہانے ان کے وارثوں سے کئی عالمی ذمہ داران کی ملاقاتیں ہوئیں۔ انھی ملاقاتوں میں ایک اہم ملاقات، عراق و شام میں نمایاں ترین عسکری کارروائیوں کے نگران ایرانی القدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی تھی۔ انھوں نے جلال الطالبانی کی بیوہ اور بیٹے سے ملتے ہوئے انھیں کرکوک شہر کے بارے میں اپنے فیصلوں سے بھی آگاہ کیا۔ مسعود بارزانی کرکوک میں شکست کا اصل ذمہ دار بھی جلال الطالبانی کے وارثوں کو قرار دے رہے ہیں۔ کرکوک ہاتھ سے نکل جانے، کردستان کے فضائی و زمینی راستے مسدود ہوجانے، بیرونی سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کے فرار ہوجانے اور عالمی سرپرستوں سمیت ساری بیرونی دنیا کی مخالفت کے بعد فی الحال کردستان کی علیحدگی آسان نہ ہوگی۔ مگر یہ خوش فہمی بھی درست نہ ہوگی کہ کرد مسئلہ ختم ہوگیا۔ خدشہ یہی ہے کہ تقریباً ایک صدی سے سازشیں کرنے والے آئندہ بھی فتنہ جوئی کرتے رہیں گے۔
٭ عالمِ اسلام کو تقسیم کرنے کی سازش:
اس موقعے پر کرد عوام کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ نسلی تعصب، الگ شناخت اور بعض اقتصادی مفادات کی بنیاد پر نسل در نسل جاری کشت و خون سے انھیں آخر حاصل کیا ہوا؟ وہ کب تک سامراجی طاقتوں کے مفادات کا ایندھن بنتے رہیں گے۔ امتِ مسلمہ کو اپنے کرد بھائیوں کی جانب سے ٹھنڈی ہوائیں آئیں تو صرف اس وقت کہ جب وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْمتی کی حیثیت سے اٹھے اور کرد رہنما سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں قبلۂ اول کو آزاد کروانے میں کامیاب ہوئے۔
بدقسمتی سے آج کردوں کی علیحدگی کے لیے سب سے توانا آواز اسرائیل ہی کی ہے۔ صرف اسی نے ریفرنڈم اور اس کے نتائج کی مکمل حمایت کی ہے۔ علیحدگی کے حامی، ریفرنڈم کے جشن کے دوران میں دو ہی پرچم لہرا رہے تھے، ایک کردستان کا اور دوسرا اسرائیل کا۔ہمارے کرد بھائی اس حقیقت سے بھی یقینا غافل نہیں ہوں گے کہ صہیونی ریاست کا اصل مقصد اپنی سرحدوں کو دجلہ و فرات تک توسیع دینا ہے۔ ’کردستان‘ صرف ایک وقتی مرحلہ اور قربانی کا بکرا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم موشے شیرٹ نے 1954ء میں اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا کہ ’’عالمِ عرب میں مختلف اقلیتوں کے دل میں علیحدگی کے جذبات کو تقویت دینا، ان سے علیحدگی و آزادی کی جدوجہد کروانا، ان کے دلوں میں ’اسلامی مظالم‘ سے نجات حاصل کرنے کی تمنا پیدا کرنا ہی اصل میں وہ کام ہے، جس سے ان علاقوں کا امن و امان تباہ کیا (اور خود محفوظ رہا) جاسکتا ہے‘‘۔ 1897ء میں وجود میں آنے والی ’عالمی صہیونی تنظیم‘ WZO نے 80 کے عشرے میں اپنی جو حکمت عملی شائع کی، اس میں خطے کے تمام ممالک کو تقسیم در تقسیم کرنا شامل تھا۔ اس میں واضح طو رپر لکھا گیا تھا کہ: ’’عراق، شام سے زیادہ طاقت ور ہے، وہ اسرائیل کے لیے زیادہ اور فوری خطرہ ہے، اس لیے پہلے عراق کو پارہ پارہ کرنا، شام کو تقسیم کرنے سے زیادہ ضروری ہے‘‘۔ 1992ء میں اسرائیل نے عرب اقلیتوں کے بارے میں ایک سیمی نار منعقد کیا۔ اس کی سفارشات میں صراحت سے کہا گیا: ’’ایسی متحرک اور مضطرب اقلیتیں، اسرائیل کے محفوظ مستقبل کے لیے برابر کی شریکِ کار ہیں۔ اسلام اور عرب قومیت کے نظریات پر نظر ثانی کرنے کے عمل میں بھی ان اقلیتوں کا بنیادی کردار ہے‘‘۔
مشرق وسطیٰ اور اسلام کے بارے میں کئی اہم کتابوں کے مصنف برطانوی نژاد امریکی دانش وَر برنارڈ لیوس سے منسوب عالم اسلام تقسیم کرنے کے منصوبے، امریکی لیفٹیننٹ کرنل رالف پیٹر کا Blood Borders(خونیں سرحدیں)کے عنوان سے پیش کردہ نیا علاقائی نقشہ، امریکی کانگریس میں پاکستان سمیت کئی ممالک کے حصے بخرے کرنے کی باز گشت، امریکی دفاعی اداروں میں پڑھائے جانے والے نئے مشرق وسطیٰ کے نقشے، کئی عالمی رسائل و جرائد میں مسلسل شائع ہونے والے مضامین، قبائلی علاقائی اور لسانی تعصبات کو ا,جاگر کرنے کے لیے مسلسل لکھی جانے والی کتب، عالمی یونی ورسٹیوں میں تقسیم امت پر کروائی جانے والی لاتعداد تحقیقات، اور مہیب ابلاغیاتی مہم دیکھیں تو موجودہ صورتِ حال کی اصل سنگینی مزید اجاگر ہوکر سامنے آتی ہے۔
’کردستان‘ ریاست بنانے کی حالیہ کوشش سے پہلے یہی تجربہ جنوبی سوڈان اور انڈونیشیا کے علاقے مشرقی تیمور میں کیا جاچکا ہے۔ حال یا مستقبل کی کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کے لیے ان تجربات میں بڑی عبرت کا سامان پوشیدہ ہے۔
سوڈان
جنوبی سوڈان میں بھی کردستان کی طرح سالہا سال کی سازشوں، قتل و غارت اور خانہ جنگی کے بعد ریفرنڈم اور اعلان آزادی کیا گیا۔ وہاں بھی تیل سے مالامال حصے کو الگ ملک بنایاگیا۔ وہاں کے عوام کو بھی اس کے نتیجے میں شان دار اقتصادی ترقی کے خواب دکھائے گئے۔ وہاں بھی شمالی سوڈان کی طرف سے جنوبی سوڈان پر مظالم اور وسائل ہڑپ کرنے کے الزامات ذہنوں میں راسخ کیے گئے۔ اسلحہ، مالی وسائل اور عسکری تربیت دی گئی۔
ایک طویل عرصے سے جاری ان کوششوں کے نتیجے میں 2011ء میں ریفرنڈم کے بل پر علیحدگی ہوگئی۔ علیحدگی کے بعد کا جنوبی سوڈان دیکھیں تو، اپنے قومی وقار کا بھرم رکھنے کی کوششیں کرتا ہوا متحدہ سوڈان، جنت نظیر دکھائی دیتا ہے۔ الگ ملک بنانے والے قبائل، شمالی سوڈان کے بعد، اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ مختلف بغاوتوں، لڑائیوں اور سازشوں کے بعد اب وہاں قحط سالی سے بھی زیادہ تباہی اور مفلوک الحالی ہے۔ جنوبی سوڈان تیل کے وسیع ذخائر کے علاوہ، انتہائی زرخیز سرزمین اور دریائے نیل سے مالامال ہے، لیکن ا س وقت دس لاکھ سے زیادہ افراد مہاجر کیمپوں میں جابسنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا مسلح قبیلہ مخالف قبائل کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا ہے اور عالمی سامراجی آقا، فریقین کو مزید اسلحہ سے نوازتا ہے۔اس الم ناک صورتِ حال سے لاتعلق عالمی کمپنیاں دھڑادھڑ تیل نکال رہی ہیں، لیکن اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق: ’’جنوبی سوڈان کو دنیا کے بدترین غذائی بحران کا سامنا ہے‘‘۔
پھر صرف جنوبی سوڈان ہی کو الگ کرنے پر اکتفا نہیں کیا گیا، سوڈان کے مغربی علاقے دارفور میں بھی شورش برپا کردی گئی۔ جنوبی سوڈان میں محرومیوں کا واویلا اور مسلم مسیحی اختلافات کی آگ بھڑکائی گئی تھی، دار فور میں عربی الاصل اور افریقی الاصل مسلمان قبائل کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔
٭بلوچستان:
اسرائیلی ذمہ داران اور ان کے عالمی سرپرستوں کا پیش کردہ مشرق وسطیٰ کا نیا نقشہ دیکھیں تو اس وقت پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک میں تقسیم در تقسیم کی تخم ریزی عروج پر ہے۔ بلوچستان سے گرفتار بھارتی جاسوس کل بھوشن تو دیگ کا صرف ایک دانہ ہے۔ جنیوا میں ہرطرف آویزاں کیے گئے آزاد بلوچستان کے اعلانات محض پاگل پن کا مظاہرہ نہیں، بلکہ پانی سر سے اْونچا ہوتے چلے جانے کا خطرناک اشارہ ہیں۔ اس وقت مغربی ممالک کے علاوہ خود کئی مسلمان ممالک میں درجنوں علیحدگی پسند بلوچ رہنمائوں کو بٹھاکر ان کے دلوں میں نفرت اور تعصب کے الائو بھڑکائے جارہے ہیں۔ ان کے ساتھ مسلسل رابطے، منصوبہ بندی اور مشترکہ پروگرام کرتے ہوئے بھارتی اور اسرائیلی ذمہ داران ’وسیع تر بلوچستان‘ بنانے کے واضح اعلانات کر رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل پر قابض صہیونی، اور اسے شہید کرنے کے لیے موقعے کی تلاش میں لگے ان کے جنونی مذہبی رہنما بلوچستان ’آزاد‘ کروانے کی قسمیں کھا رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب کے لیے دوردراز کا سفر طے کر کے آنے والا اسرائیلی نائب صدر مینڈیلسن اپنے خطاب میں ایلیزا گرین برگ کے مضمون سے طویل اقتباسات پڑھتے ہوئے، بلوچستان کو پاکستان سے الگ کر دینا اپنا اہم مشن قرار دیتا ہے۔ مضمون کا عنوان: Kurds, Baloch and Israelis ہی ساری سازشیں بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔
ایک طرف افغانستان، مختلف بھارتی ایجنسیوں اور بے خبر بلوچ نوجوانوں کو اپنے ناپاک عزائم کی بھینٹ چڑھانے کے لیے قائم تربیتی کیمپوں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔اور دوسری جانب پاکستان کے قریب ترین دوست اور برادر ممالک علی الاعلان بلوچستان الگ کرنے کی بات کر ر ہے ہیں۔ یقینا اس کی وجہ ایران عرب مخاصمت اور شیعہ سْنّی تنازعات کا افسوس ناک عروج ہے۔ یہ ممالک کبھی کبھی اس سے پاکستان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں، اور ان کے سرکاری و غیر سرکاری ذرائع ابلاغ صرف ’ایرانی بلوچستان‘ کا نام ہی لیتے ہیں، لیکن اس تجاہلِ عارفانہ اور خودفریبی سے وہ عالمی منصوبے تبدیل نہیں ہوسکتے، جو پاکستان و ایران ہی نہیں ، خود افغانستان کے حصے بخرے کرنے کے لیے نافذ کیے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تقسیم در تقسیم کیے جانے کے ان منصوبوں کی فہرست میں تقریباً تمام ہی عرب ممالک کا نام بھی شامل ہے، حتیٰ کہ مکہ و مدینہ کو الگ کرنا بھی انھی مکروہ عزائم میں شامل ہے۔
٭اسلامی اخوت کے فروغ کی ضرورت:
’کردستان‘ ، جنوبی سوڈان اور خود مشرقی پاکستان سمیت دیگر کئی علاقوں میں تقسیم کا یہ تاریخی سفر دیکھتے ہوئے، پوری مسلم دنیا کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ محرومیوں کا ازالہ کرنا ہوگا۔ ہر ظلم اور ناانصافی ختم کرنا ہوگی۔ تمام انسانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق: ’’کنگھی کے دندانوں کی طرح‘‘ برابر سمجھنا ہوگا۔ ہرعلیحدگی پسند کو بھی بے لاگ جائزہ لینا ہوگاکہ اس سے بے انصافی میں دوسروں کا کتنا ہاتھ ہے اور خود ان کے اپنے بعض سرداروں کی لوٹ مار کا کتنا کردار؟ اس پورے منظرنامے سے یہ مسلمہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ صرف قوت کے بل بوتے پر کہیں بھی امن و استحکام قائم نہیں کیا جاسکتا۔ دشمن بھی اس سارے گھنائونے کھیل میں صرف اسلحہ اور پیسہ استعمال نہیں کررہا، قلب و نگاہ میں فساد بورہا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے امتِ مسلمہ کو بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے، دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ہر تعصب یا لالچ سے زیادہ مضبوط کرنا ہوگا۔
منافقین نے ریاست نبویؐ مستحکم ہوتے دیکھی تو باہم مشورہ کرتے ہوئے اوس و خزرج اور انصار و مہاجرین کا تعصب ابھارنا چاہا۔ آپؐ کو اطلاع ملی تو فوراً تشریف لائے۔ چہرۂ مبارک ناراضی سے سرخ تھا۔ آتے ہی فرمایا: ’’یہ کیسی جاہلانہ بات ہے؟‘‘ پھر فرمایا: ’’یہ تعصبات چھوڑ دو یہ بدبودار لاش ہے‘‘۔
معروف تابعی جناب شَہر بن حوشب نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ سے دریافت کیا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کون سی دعا سب سے زیادہ کیا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: آپؐ اکثر فرماتے تھے: ’’اے دلوں کو پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر جما دے‘‘۔ اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور معروف فرمان پر جتنا بھی غور کریں، رہنمائی کے نئے سے نئے باب کھلتے چلے جاتے ہیں۔
آپؐ نے فرمایا:’’خبردار رہو، جسم میں ایک لوتھڑا ایسا ہے کہ جب وہ درست ہوجاتا ہے تو سارا جسم درست رہتا ہے۔ وہ فساد زدہ ہوجاتا ہے تو سارا جسم فساد زدہ ہوجاتا ہے۔ خبردار رہو وہ دل ہے۔‘‘یعنی دل ایمان، تقویٰ، عزیمت اور محبت کا مرکز بھی ہوسکتا ہے اور دل ہی کفر، عناد، تعصب، نفرت اور لالچ کی آماج گاہ بھی بن سکتا ہے۔ دلوں میں خیر و بھلائی کی شمع روشن ہوجائے، تو ایک فرد ہی نہیں، پوری قوم اور معاشرہ نجات و فلاح پاجاتا ہے۔ دل غفلت کا شکار ہوکر زنگ آلود ہوجائیں، گناہوں کے سیاہ نقطے بڑھتے بڑھتے پورے دل کو لپیٹ میں لے لیں تو افراد ہی نہیں، اقوام و ممالک تباہی و بربادی کی جانب بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
شیطان رجیم بھی اپنے دل میں پائے جانے والے تکبر اور عناد کی وجہ سے تباہ ہوا۔ پھر آدم و حوا علیہما السلام پر بھی دل ہی کی راہ سے حملہ آور ہوا: ’’شیطان نے ان کے دل کو بہکایا۔ آکر بڑے چاپلوسانہ انداز میں قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا: میں آپ دونوں کا بڑا خیر خواہ ہوں‘‘۔ پھر کائنات کا پہلا قتل بھی آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں میں سے ایک کے دل میں نفرت و حسد کی آگ بھڑکاتے ہوئے کروایا گیا۔ ایک کے اخلاص قلب اور تقویٰ کے باعث، اس کی قربانی قبول ہوئی، دوسرے کے دل میں کھوٹ تھا، عمل قبول نہ ہوا۔ بجائے اس کے، کہ وہ اپنی اصلاح کرتا، حسد اور نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے اس نے بھائی کے قتل کا ارادہ و اعلان کردیا’’میں تمھیں قتل کرکے چھوڑوں گا‘‘۔
رب ذوالجلال نے نفرت و حسد پر مبنی اس واقعے کا ذکر کرنے کے بعد کسی ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دے دیا اور کسی ایک انسان کو بچالینا گویا پوری انسانیت کو بچالینا قرار دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس جرم کی سنگینی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قتل ہونے والا کوئی بے گناہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے قتل کے گناہ کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے قاتل بیٹے کو نہ پہنچتا ہو، کیوں کہ اس نے قتل متعارف کروایا۔ گویا اتنے خوفناک عذاب کا آغاز دل میں جلنے والی آتشِ حسد و نفرت سے ہوا۔ سب مل کر اسے بجھانے کی کوشش کریں گے تو ایک بار پھر باہم محبت و اخوت کی نعمت نصیب ہوجائے گی۔ دنیا ہی نہیں آخرت بھی سنور جائے گی:
’’سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔‘‘ (آل عمران3: 103 )