تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال

555

ملک میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال پاکستانی عوام کے لیے جہاں دلچسپ ہے وہیں کچھ تشویش کے مراحل بھی سامنے ہیں کہیں اتحاد بن رہے ہیں تو دوسرے دن ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ اچھے مستقبل کی امیدیں اور ناامیدی کے وسوسے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، 2018 کے انتخابات وقت پر ہو جائیں گے یا آگے بڑھ جائیں گے، یا قبل از وقت انتخاب کا جو پر زور مطالبہ پی ٹی آئی کی طرف سے آرہا ہے اس کو اگر پزیرائی مل جاتی ہے تو کن انتخابی فہرستوں پر یہ انتخابات ہو ں گے۔ مردم شماری پر اعتراضات کے پہاڑ کھڑے کردیے گئے ہیں۔ فوج کی نگرانی میں ہونے والی مرد شماری میں پی پی پی کا کہناہے کہ سندھ کی آبادی کم دکھائی گئی ہے، ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ کراچی کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کم شمار کی گئی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے مطالبات میں صحیح و غلط کا فیصلہ کرنا تومشکل ہے لیکن اس کا اثر یہ ہورہا ہے کہ قومی اسمبلی میں مردم شماری کو حوالے سے قانون سازی نہیں ہو پارہی ہے جب کہ الیکشن کمیشن نے دس نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی تھی کہ اگر اس تاریخ تک قانون سازی ہو گئی تو اگلے برس کے انتخابات وقت پر ہو سکیں گے ورنہ ہماری مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اسپیکر ایاز صادق تو جان توڑ کوشش کررہے ہیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان اس حوالے سے کوئی نکتہ اتفاق مل جائے اب تک تو وہ ناکام ہیں اور دس نومبر بھی گزر گئی۔ کراچی کی سیاسی صورت حا ل پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی ہیں، ایک دن کراچی پریس کلب میں ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کا اتحاد ہوتا ہے اور اس میں بتایا جاتا ہے کہ ہم آئندہ انتخابات میں ایک نشان اور ایک نام پر متحد ہو کر لڑیں گے تاکہ اردو اسپیکنگ ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے اور اس پریس کانفرنس میں واضح طور پر دونوں طرف سے کہا گیا نشان بھی یہ نہیں ہوگا اور نام بھی کچھ اور ہوگا یعنی ایم کیو ایم اور پی ایس پی نام ختم ہوجائیں گے اور کوئی تیسرا نام رکھا جائے گا۔
دوسرے دن ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فاروق ستار شریک نہیں ہوئے کیوں کہ اس سے پہلے پریس کلب کی مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد عامر خان کا بیان آگیا کہ ایسا کچھ طے نہیں ہوا تھا جب کہ فاروق ستار کا کہنا یہ تھا کہ پچھلے دو دنوں سے پی ایس پی سے جو بات چیت چل رہی تھی اس میں ہم عامر خان سمیت رابطہ کمیٹی کے دیگر لوگوں سے باقاعدہ مشاورت کررہے تھے اور سب کو اعتماد میں لے کر ہم کراچی پریس کلب پہنچے تھے اپنی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے اندر بعض لوگوں کے رویے سے فاروق ستار کافی دلبرداشتہ ہوئے اور وہ رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ رابطہ کمیٹی نے اپنی پریس کانفرنس میں بڑی وضاحت سے کہا کہ ہم اپنا نام ختم کریں گے نہ نشان۔ ہم اپنی جیتی ہوئی نشستوں پر خود لڑیں گے غرض یہ کہ رابطہ کمیٹی نے ایک دن پہلے کی مشترکہ پریس کانفرنس اور اس کے اعلامیے پر جھاڑو پھیر دیا۔ رابطہ کمیٹی کی اس پریس کانفرنس کے بعد فاروق ستار نے ذاتی طور پر پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے نمائندوں کو اپنی پریس کانفرنس کی اطلاع بھجوائی اور تقریباً نو بجے کے بعد اپنی طویل ترین پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس نے الطاف حسین کی اکثر ان پریس کانفرنسوں کی یاد تازہ کرادی جس میں وہ تنظیم چھوڑنے اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کرتے اور پھر ’’نہیں بھائی‘ نہیں بھائی‘‘ کی صدائیں فضاء میں دیر تک گونجتیں کچھ دیر کے بعد معلوم ہوتا کہ بھائی واپس آگئے، یہی کام فاروق ستار نے کیا کہ ایک ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر کے بعد آخر میں سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا جس پر ان کے ساتھیوں بالخصوص وسیم اختر اور کامران ٹیسوری نے شدت سے احتجاج کیا اور دیگر کارکنان بھی پر جوش نعرے بازی کرنے لگے وسیم اختر نے تمام چینلز کے مائیک نیچے پھینک دیے فاروق ستار گھر چلے گئے اور انہوں نے دروازہ بند کرلیا لیکن ان کے ساتھ اور دیگر ساتھی بھی اندر گئے ان لوگوں نے فاروق ستار کی والدہ کی منت و سماجت کر کے انہیں راضی کیا۔
یہ قیاس آرائی کی جاسکتی ہے کہ یہ سب ایک ڈراما تھا یا یہ کہ حالات کچھ اس طرح آگے بڑھتے چلے گئے کہ اس نے ایک ڈرامے کا روپ دھار لیا۔ سینئر صحافی جاوید چودھری کا تبصرہ ٹھیک معلوم ہوا کہ جس میں انہوں نے کہا کہ دراصل آج سے فاروق ستار کی سیاست کا آغاز ہوا ہے اور یہ ایک نئے عزم کے ساتھ میدان سیاست میں آئیں گے اس رات تمام چینلوں پر تبصروں کی بھرمار تھی۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور ایک معاشی حب بھی ہے اس لیے یہاں کی سیاست پورے ملک پر اثر انداز ہوتی ہے۔ دوسرے دن یعنی ہفتے کو پی ایس پی کی پریس کانفرنس تھی جس میں فاروق ستار نے کہا کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کا طعنہ دینے والے فاروق ستار پچھلے آٹھ ماہ سے اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے ہم پر دباؤ ڈلوا رہے تھے کہ پی ایس پی کو ایم کیو ایم میں ضم کردیا جائے ہم نے اس انکار کیا کہ ہم ملک کی سیاست کرنا چاہتے ہیں، پھر یہ ہمیں رینجرز کے دفتر میں بلایا گیا جہاں فاروق ستار پہلے سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے، خواجہ اظہار نے مشترکہ تحریر لکھی جو مصطفی کمال نے صحافیوں کو بھی دکھائی اور کہا کہ اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہم ایک نشان اور ایک نام پر متحد ہو کر انتخاب میں حصہ لیں گے۔ اس طرح کی دونوں طرف سے گرم گرم پریس کانفرنس کے بعد بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب ان کے راستے الگ ہو گئے ہیں ساتھ ہی عوام نے یہ بھی دیکھ لیا کہ دونوں جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی ہی میں سیاست کررہی ہیں اس لیے پچھلے تین چار دن کی ہنگامہ خیز صورت حال کسی ڈرامے کا ڈراپ سین نہیں ہے بلکہ جب ضرورت محسوس ہو گی ان کو پھر دوبارہ ملایا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف بلدیہ فیکٹری میں دوسو پچاس سے زائد مظلوم شہیدوں کا لہو بھی پکار رہا ہے کہ ہمارے خون کو کسی سیاست میں نہ استعمال کیا جائے بلکہ ہمارے درندہ صفت قاتلوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ مرکزی ملزم حماد صدیقی کی گرفتاری کے بعد یہ خبریں مسلسل آرہی ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی دونوں کی پارٹی کے اندر سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مددگار اور سہولت کار موجود ہیں جنہیں جلد گرفتار کرلیا جائے گا ان خبروں نے دونوں پارٹیوں کے ایک سراسیمگی کی لہر دوڑا دی اور شاید اسی وجہ سے یہ سوچ پیدا ہوئی کہ جلد از جلد ایک ہو کر اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے کہ کہیں ان کا نام بھی بلدیہ فیکٹری کے مجرموں میں نہ شامل کرلیا جائے۔ حالاں کہ ایسا سوچنا ایک طرح کی حماقت ہے نواز شریف صاحب کی فیملی کی حدیبیہ پیپر مل کے مسئلے سے اب تک جان نہیں چھوٹ سکی توہ بلدیہ فیکٹری کے مجرموں کی کیسے جان چھوٹ سکتی ہیں ہوسکتا ہے عارضی طور پر یہ مسئلہ دبا دیا جائے لیکن معصوم شہیدوں کا خون ایک دن ضرور رنگ لائے گا۔
کراچی کے بڑے بڑے سانحات (بلدیہ فیکٹری کا سانحہ، وکلا کو ان کے دفاتر میں زندہ جلا ڈالنے کا واقعہ، 12مئی کا سانحہ، نشتر پارک میں 50 سے زائد علماء کی شہادت) کو کسی بھی قسم کی سیاست میں استعمال کرنے اور ان کے مجرموں کو ڈھیل دے کر اپنا مطیع و فرمابردار بنا کر رکھنے کی پالیسی کو ختم کیا جائے اب وقت آگیا ہے کہ ملکی سیاست کو جرائم سے پاک کیا اور یہ اسی وقت ہو سکے گا جب ہم ان سانحات کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلائیں تاکہ جلد از جلد مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔