انجن کے بغیر گاڑی نہیں چل سکتی

298

آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سربراہی میں پاکستان عوامی اتحاد تشکیل پایا ہے اس کی رکن جماعتوں کی تعداد 23 ہے، اس لحاظ سے اسے ’’پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی اتحاد‘‘ کہا جاسکتا ہے ملک میں سیاسی اتحادوں کی تاریخ میں یہ دوسرا اتحاد ہے جس میں کلیدی اہمیت کسی سابق فوجی جرنیل کو ملی ہے۔ بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد میں اصغر خان اگر چہ اتحاد کے سربراہ نہیں تھے لیکن ان کی اہمیت بہت زیادہ تھی بعد میں وہ طاہر القادری اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ عوامی اتحاد میں گئے، اسی طرح سیاسی اتحادوں میں آئی جے آئی، بنا لیکن ان تمام اتحادوں میں سیاسی جماعتوں کی تعداد پندرہ سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی مشرف کی قیادت میں اب تیئس سیاسی جماعتیں ایک مقصد کے لیے اکٹھی ہوئی ہیں اسے اتحاد کا نام تو دیا جارہا ہے لیکن یہ ایک انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لینے والا اتحاد نہیں ہے لہٰذا جو بھی اسے انتخابی اتحاد سمجھ رہا ہے وہ غلطی پر ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ انتخابی اتحاد نہیں تو پھر یہ ہے کیا؟ در اصل مسلم لیگ (ج) کے اقبال ڈار ایک عرصے سے اس کوشش میں تھے کہ حکومت کے خلاف ہم خیال شخصیات اور سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنا چاہیے اور مل کر ایک رائے بنا کر کام کرنا چاہیے اور اس طرح ہم آواز ہوناچاہیے کہ لوگ انہیں ایک اتحاد میں شامل سمجھیں اس اتحاد کے اعلان کے بعد جب یہ تاثر ملا کہ کسی اتحاد کی تشکیل کا نام دیا گیا ہے تو اسی لیے متعدد سیاسی جماعتوں نے اس سے علیحدگی کا اعلان کیا جب اصل صورت حال معلوم ہونے پر یہی جماعتیں پھر سے ایک دوسرے کے ساتھ چل رہی ہیں۔ اس اتحاد میں شامل جماعتوں میں جنرل پرویز مشرف کی جماعت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی قومی اسمبلی میں نمائندگی موجود ہے اگرچہ یہ صرف ایک ہی نشست رکھتی ہے تاہم ان سترہ جماعتوں میں ضرور شامل ہے جو پارلیمنٹ میں موجود ہیں، باقی تمام جماعتوں کا مشترکہ اعزاز یہ ہے کہ ان کے پاس کسی بھی اسمبلی کی کوئی نشست نہیں، بہت سی جماعتیں تو ایسی ہیں جنہوں نے کبھی قومی سطح پر بھرپور الیکشن نہیں لڑا، ان جماعتوں میں سے ایک جماعت مسلم لیگ (کونسل) ہے جو ایک زمانے میں واقعی بڑی جماعت تھی، ایوب خان کے زمانے میں میاں ممتاز دولتانہ اور سردار شوکت حیات اس کے بڑے رہنما تھے، اور بھی بہت سے بڑے نام اس میں شامل تھے ایوب خان کی کنونشن لیگ کے مقابلے میں حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت تھی میدانِ سیاست میں اس کا ڈنکا بجتا تھا ایک مردِ مجاہد سردار نصراللہ جو خود تو امریکا میں مقیم ہیں اس جماعت کو تنِ تنہا زندہ رکھا ہوا ہے مسلم لیگ کونسل جیسی جماعتیں خوش قسمت ہیں کہ ان کی نہ تو کوئی رابطہ کمیٹی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی کونسل ہے جو اپنے قائد پر دباؤ ڈال کر کہہ سکے کہ وہ اتحاد میں کیوں شامل ہوئی ہیں ایک جماعت عوامی تحریک ہے وہ اعلان لاتعلقی کے بعد بھی اس اتحاد کا حصہ ہے، عوامی تحریک کا کمال یہ ہے کہ وہ بڑا دھرنا تو دے سکتی ہے لیکن اگر ایک رکن اسمبلی منتخب کرانا پڑے تو اس کی جان پر بنی ہوتی ہے، ایک بار 2002ء میں ڈاکٹر طاہر القادری اس جماعت کی جانب سے رکن اسمبلی منتخب ہوگئے تھے اس انتخاب میں انہیں سرپرستی حاصل تھی لیکن وہ زیادہ دیر تک اسمبلی کے ایوان میں نہ ٹھیر سکے اور 42 صفحات کا ایک خط اسپیکر چودھری امیر حسین کو لکھ کر رکنیت چھوڑ دی کہ وہ ایوان میں بیٹھ کر اُکتا دینے والی بے روح اور بے معنی تقریریں نہیں سن سکتے تھے خیر اب وہ جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں بننے والے اتحاد میں شریک ہیں۔ دوسری جماعت جس نے فی الحال اتحاد سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے وہ مجلسِ وحدت المسلمین ہے اور اس کا موقف یہ ہے کہ اس کے جو رہنما اغواء کیے گئے ہیں فی الحال ان کی ساری توجہ ان کی بازیابی پر ہے اس جماعت کے بارے میں یہ بات اہم ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں اس نے چار سو سے زائد امیدوار کھڑے کیے تھے۔ جن میں سے ایک بھی منتخب نہ ہوسکا، تیسری جماعت سنی اتحاد کونسل ہے جس کے سربراہ صاحب زادہ حامد رضا ہیں وہ پاکستان عوامی اتحاد کے ساتھ ’’غیر انتخابی اتحاد‘‘ میں شریک ہیں، البتہ ان کا انتخابی اتحاد نظام مصطفی متحدہ محاذ سے ہے۔ صاحب زادہ حامد رضا کے والد محترم صاحب زادہ فضل کریم مرحوم دو بار مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کے دوران انہوں نے بہت ہی قابل تعریف سیاسی کردار ادا کیا تھا وہ مسلم لیگ ن کے اتحادی رہے ہیں اور کابینہ میں بھی شامل رہے ہیں۔
اب دیکھنا ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کی رکنیت کے حساب سے ملک کا سب سے بڑا اتحاد اگلے انتخابات میں کیا کردار ادا کرتا ہے کیوں کہ تین جماعتوں کے اعلانِ لا تعلقی کے باوجود بھی وہ سب سے بڑا اتحاد ہے لیکن اس اتحاد میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کوئی بڑی جماعت یا سیاسی شخصیت شامل نہیں ہوسکتا اس کی وجہ مشرف حکومت اور اکبر بگٹی کا واقعہ ہو، اس اتحاد کا انجن پرویز مشرف ہیں اور وہ ملک ہی میں نہیں، ان کی عدم موجودگی میں ہونے والے فیصلوں پر انہیں جیسی تیسی بریفنگ ہوگی اسی پر وہ انحصار کرنے پر مجبور ہوں گے اس اتحاد کی تشکیل کے بعد جن جماعتوں نے الگ ہونے کا اعلان کیا اس کی وجہ بھی مشرف کو دی گئی بریفنگ ہی تھی کہ انہیں یہاں ہونے والے اصل فیصلوں کے برعکس بریف کیا گیا تھا۔