الطاف کے سابق مداح اور ان کے ڈرامے

571

الطاف حسین نے 11 جون 1978کو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) بنانے کے بعد مارچ 1984جو مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) قائم کی تھی، بعض دور اندیش اذہان کے خدشات کے مطابق اس کے وہی نتائج نکلے جن کی توقعات تھیں۔ اپنے 32سالہ دور میں الطاف کی تحریک نے الطاف اور ان کے قریبی ساتھیوں کو تو شاید بہت کچھ دے کر ان کی ’’اوقات‘‘ ہی بدل دی۔ جس قوم کے حقوق کے لیے یہ تحریک قائم کی گئی تھی اسے حقوق تو نہیں مل سکے لیکن جو سکون ان کی زندگیوں میں تھا وہ بھی چھین لیا گیا تھا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی بھی عمل کا ردعمل نہ سامنے آئے۔ حد تو یہ کہ جو ایم کیو ایم کے قائد کے قابل اعتماد ساتھی تھے وہی سب سے پہلے ان کی سیاست سے بیزار آکر ان سے الگ ہوئے۔ الطاف حسین اور ان کی پارٹی کا ہر عمل ایک عرصے تک ’’تاریخی‘‘ ہوا کرتا تھا۔ تاریخ بنانے کا یہ سلسلہ اب عبرتناک سلسلے میں داخل ہوچکا ہے۔ ایک طویل عرصے بعد مہاجروں یا سندھ کے شہروں میں رہنے والے اردو بولنے والوں کو وہ سکون تو مل گیا جو ایم کیو ایم کے قیام اور سرگرم ہونے کے بعد برباد ہوچکا تھا۔ مگر اللہ کا نظام دیکھیے کہ ایم کیو ایم اس کے بانی قائد الطاف سے جڑے ہوئے بیش تر افراد آج اسی طرح بے چین اور غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں جس سے مہاجر عوام 30, 32 سال تک دوچار رہے۔ ایم کیو ایم اس لحاظ سے بھی منفرد مگر پرسرار سیاسی جماعت رہی جس کے سب سے زیادہ کارکن اور رہنما قتل اور گرفتار ہوئے۔ گرفتاریوں کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے۔ کوئی بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ گرفتار ہوکر مقدمات کا سامنا کرنے والے بے قصور اور معصوم ہیں یا تھے۔
عام تاثر یہ تھا کہ ایم کیو ایم لندن یا پرانی ایم کیو ایم کو کسی نہ کسی لحاظ سے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت رہی ہے۔ یہ حمایت کسی جگہ ایم کیو ایم کی شرانگیزیوں پر پردہ ڈالنے یا ان میں ملوث افراد کو فوری گرفتار نہ کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ دی گئی۔ مگر لوگ اب تماشا نہیں روز کے تماشے دیکھ رہے ہیں۔ یہ تماشے کسی اور کے نہیں بلکہ الطاف حسین پر جان نچھاور کرنے اور ’’منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کے درمیان چل رہے ہیں۔ یہ لوگ جو الطاف حسین کی تربیت کا پرچار کیے بنا نہیں رہتے تھے، آج ان کی برائی کے بنا ان کی سیاست بھی نہیں ہے۔
الطاف کی سیاست‘ سیاست تھی یا نہیں اس بارے میں وہی لوگ جو اس سے جڑے ہوئے تھے کہہ رہے ہیں کہ: ’’یہ سیاست نہیں تھی‘‘۔ ایم کیو ایم کے سابق رہنما اور الطاف حسین کے پرانے ساتھی سلیم شہزاد کا واضح موقف ہے کہ ’’1992بعد ایم کیو ایم اپنے نظریے سے ہٹنا شروع ہوگئی تھی اور 2000, 2001 کے بعد ایک مافیا کی شکل اختیار کرگئی تھی۔ 1992کے بعد سے لیکر 2013 تک بھی جو لوگ اس ایم کیو ایم اور اس کے قائد کے جاں نثار تھے، 3 مارچ اور 22اگست 2016کو دو مختلف مراحل میں الطاف حسین اور ان کی پارٹی سے بغاوت کرنے والے آج دونوں ایک دوسرے کے مخالف نظر آرہے ہیں۔ جس ایم کیو ایم نے ٹیلی فون آپریٹر مصطفی کمال کو سٹی ناظم تک بنادیا وہی مصطفی کمال ’’ہوش‘‘ میں آئے تو ایم کیو ایم کو دفن کرنے کی باتیں کرنے لگے۔ مگر پھر یکایک، 23 اگست 2016 کو ایم کیو ایم پاکستان کا روپ دھارنے والی جماعت کے سربراہ کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور انہتائی چالاکی سے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اب وہ دونوں ایک ہی نئے نام سے سیاست کریں گے۔ لیکن مصطفی کمال کا یہ اعلان صابن کے جاگ کی طرح 24گھنٹے میں ہی غائب ہوگیا۔
سوال یہ تھا کہ مصطفی کمال کو اچانک ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کی ایم کیو ایم سے تعلقات بڑھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور ایک ایسے وقت میں یہ اتحاد بنانے کی کوشش کیوں کی گئی جب بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹ فیکٹری کی آتش زدگی کے واقعے میں ملوث حماد صدیقی کی دبئی میں گرفتاری عمل میں آتی ہے۔ مصطفی کمال اپنی 3مارچ اور اس کے بعد کی پریس کانفرنس میں بھی حماد صدیقی کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ نہ تو سانحہ بلدیہ میں ملوث ہیں اور نہ ہی کسی اور دہشت گردی کے واقعات میں۔ ان کے دعووں سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ مصطفی کمال، حماد صدیقی کا کیس لڑرہے ہیں۔
بہرحال ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے درمیان 24 گھنٹے کے حالیہ ’’اتحاد اور انتشار‘‘ یا سیاسی ڈرامے کی پرسراریت اب تک قائم ہے۔ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ جو کچھ دونوں جماعتوں نے کیا وہ کس کا اسکرپٹ تھا۔ باخبر ذرائع یہ کہتے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے اس دھڑے کا اسکرپٹ تھا جو آئندہ انتخابات میں کراچی کی سیاست کو پھر اکٹھا کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ بعض حلقے اس کے پیچھے سابق صدر کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ مگر ایک خیال یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین نے جو پریس کانفرنسوں کے ذریعے کیا وہ صرف حماد صدیقی کی گرفتاری اور اس سے پوچھ گچھ کے نتیجے میں سامنے آنے والے انکشافات کو چھپانے کی کوشش تھا۔ شاید اس کوشش میں کامیابیاں بھی ہوئیں ہیں۔
سب ہی جانتے ہیں کہ پی ایس پی کو ایم کیو ایم پاکستان اور اس کے مخالف ’’لانڈری‘‘ کیوں کہتے ہیں۔ یہ کیسی لانڈری ہے جہاں جرائم پیشہ دھل رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت متعلقہ اداروں کو کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔! آخر کیوں؟
سیاست کو کرپٹ اور جرائم پیشہ عناصر کو تباہ و برباد کرنے کے بعد اب انہیں پورے نظام کو مفلوج کرنے کی طرف بڑھایا جارہا ہے۔ ایسے لوگ اپنے اور اپنے کاروبار کے تحفظ کے لیے کسی کو بھی داؤ پر لگا سکتے ہیں۔ انہیں ملک و قوم سے کوئی دلچسپی نہیں وہ صرف سیاست اپنی بقاء کے لیے کررہے ہیں۔ آج قوم سوچ اور سمجھ رہی ہے کہ آخر کرپٹ اور مجرموں کو کب تک سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور کب تک ان کے گناہوں کو چھپا کر ان ہی کے ذریعے ملک کا نظام چلایا جائے گا؟ کیا ہم کبھی سیاست اور جرائم کو الگ بھی کرسکیں گے یا نہیں؟
آئندہ انتخابات میں اگر کسی جانب سے بھی بدعنوان اور جرائم پیشہ عناصر کی حمایت کی گئی تو عوام سے ان کا حق رائے دہی چھیننے اور ان پر مسلط ہونے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔ لیکن مایوسی نہیں ہے، پھر توقع ہے کہ اللہ کی ذات کا کوئی معجزہ ہوگا اور تمام خدشات کے برعکس اصلی جمہوریت پسندوں کی حکومت قائم ہوگی، ان شاء اللہ۔