ایک تباہ کن زلزلے کی چاپ 

612

ایران اور عراق کی سرحد پر 7.3 کے زلزلے میں تباہی کا تناسب ہماری نسبت کم رہا۔ اس زلزلے میں اب تک چار سو سے زیادہ افراد جاں بحق اور سات ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ زلزلے کا مرکز تیئس کلومیٹر زمین کے اندر تھا اور اس سے اکتیس کلومیٹر کا علاقہ متاثر ہوا۔ 2003 میں ایران کے شہر بام میں خوفناک زلزلے میں 26ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ ایران نے بام کی تباہی سے خاصا سبق سیکھا ہے اور تعمیرات کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ حفاظتی اقدامات اپنائے ہیں۔ حالیہ زلزلے میں متاثر ہونے والے شہر کی میڈیا میں آنے والی تصویروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس شہر میں بہت سے بلند وبالا عمارتیں اور ٹاور بھی تھے۔ یہ ایک گنجان آباد شہر بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس کے باوجود جانی نقصان کا تناسب ماضی کی نسبت کم رہا اپنی شدت اور سنگینی کے اعتبار سے یہ ایک خوفناک زلزلہ تھا۔ جس علاقے میں یہ زلزلہ آیا وہاں زیر زمین کئی فالٹ لائنز گزرتی ہیں اور یہ حکومتیں اس حقیقت کو قبول کرکے زندہ ہیں اور اس حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے پہلے سے تیار ہوتی ہیں۔ ایران میں چودہ سال بعد خوفناک زلزلے میں نقصان کا گراف کم رہا۔ جاپان تو ہمہ وقت ہی زلزلے کے جھٹکوں کے باعث جھولتا رہتا ہے مگر اپنے طرز تعمیر کو اس تلخ حقیقت کے تابع کرکے وہ نقصان سے بچ گئے ہیں۔ ہمارے ہاں آٹھ اکتوبر کے زلزلے کو بھی بارہ برس گزر گئے یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا ہم نے اس زلزلے کی تباہی سے کوئی سبق سیکھا ہے؟۔
چند دن قبل ملک کے حساس ادارے آئی ایس آئی نے وفاقی حکومت کو مطلع کیا تھا کہ بحرہند میں ایک خوفناک زلزلے کا خدشہ ہے جس سے خطے کے کئی ممالک بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس اطلاع کا نوٹس لے کر وفاقی حکومت نے تمام متعلقہ اداروں کو ریلیف اور ریسکیو کی تیاریوں کا حکم دیا تھا۔ اس سلسلے میں آفات سے نمٹنے کے لیے قائم ادارے ایرا نے ایک خط کے ذریعے تمام متعلقہ اداروں اور تنظیموں کو متوقع زلزلے کی تباہ کاریو ں کے مقابلے کی تیاری کے اقدامات کرنے کو کہا تھا۔ میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل غلام رسول نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے متعلقہ تمام اداروں کو اس سلسلے میں اقدامات کرنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ ایرا نے بھی خط میں تمام اداروں کو باخبر اور متحرک رہنے کو کہا ہے۔ ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے تین رکنی ٹیم بھی تشکیل دی ہے۔ گوکہ اس طرح کی رپورٹس کی کوئی سائنسی توجیہہ پیش نہیں کی جا سکتی مگر ان رپورٹس کو کلی طور پر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ گوکہ امریکا میں مقیم پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ایک ٹویٹ میں اس اطلاع کا مذاق یوں اُڑایا تھا کہ اب آئی ایس آئی نے محکمہ موسمیات کا کام بھی سنبھال لیا ہے مگر عمومی طور پر یہی سمجھا جا رہا تھا کہ حساس ادارے نے اگر اس طرح کا کوئی خدشہ ظاہر کیا ہے تو اس کی کوئی ٹھوس بنیاد ہو سکتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی عالمی میٹرولوجیکل سینٹرکی کوئی رپورٹ اس اطلاع کی بنیاد ہو۔ اس بات کا امکان ہے کہ کسی دوسرے ملک سے معلومات کے تبادلے میں یہ خبر ملی ہو۔
آٹھ اکتوبر کے تباہ کن زلزلے کی پیش گوئی بھی امریکن جیالوجیکل سروے نامی ادارے نے کم وبیش تین سال قبل کی تھی اور اس رپورٹ پر مبنی خبر پاکستان کے اخبارات میں بھی شائع ہوئی تھی۔ لیکن اس رپورٹ کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ آٹھ اکتوبر کے زلزلے سے ذہنی اور عملی طور پر نمٹنے کے لیے ہمارے پاس کوئی تیاری نہیں تھی اور اس غفلت نے پچھتر ہزار انسانوں کو نگل لیا تھا اور ہنستے بستے شہر ویران ہو کر رہ گئے۔ اس قیامت خیز زلزلے کا پہلا سبق آفات سے مقابلے کی قبل از وقت تیاری تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آٹھ اکتوبر کے زلزلے کو بارہ سال گزرنے کے باجود ہم نے اپنے لچھن اور طور طریقے بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ادارے تو قائم ہوئے مگر مستقبل کے چیلنجز کے مقابلے کی تیاری عملی طور پرکہیں نظر نہیں آئی۔
زلزلے میں تباہ ہونے والے شہروں میں آزادکشمیر کا دارالحکومت مظفر آباد، ضلعی ہیڈ کوارٹر باغ اور خیبر پختون خوا کا شہر بالاکوٹ اور مقبوضہ کشمیر کا قصبہ اوڑی شامل تھے۔ ایک فالٹ لائن متحرک ہونے سے پوری پٹی متاثر ہوئی تھی او ر ہزاروں افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہو گئے تھے۔ زلزلے کا دوسرا سبق اپنی تعمیرات کو محفوظ سے محفوظ تر بنانا تھا لیکن ہم نے اس سمت میں کوئی
قابل ذکر پیش رفت نہیں کی بلکہ پہلے سے زیادہ لاپروائی کا مظاہرہ شروع کر دیا گیا۔ کھلے مقامات کی پہلے ہی ہمارے ہاں کمی تھی مگر زلزلے کے بعد کھلے مقامات کی اہمیت سمجھنے اوراس ضرورت کا احساس کرنے کے بجائے ان مقامات پر غیر منظم اور بے ہنگم تعمیرات کی گئیں۔ کراچی تو چائنا کٹنگ کے لیے مشہور تھا ہی مگر اب ملک کے دوسرے شہروں میں بھی پبلک پارکوں اور کھلے مقامات پر قبضوں کے روایت عام ہو چکی ہے۔ راولپنڈی کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں چنار پارک پر قبضے کے خلاف اکثر مقامی افراد سوشل میڈیا پر احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تعمیرات کے ذمے دار اداروں نے رشوت اور سفارش کی بنیاد پر بلڈنگ کوڈ کو پس پشت ڈال کر تعمیرات کے لیے این او سی جاری کرنے کی روایت اپنا لی اور اس طرح ملک بھر کے گنجان آباد علاقے اور بازار مزید بے ترتیب اور خطرناک ہو گئے۔ حالاں کہ یہ خطہ اب بھی کئی فالٹ لائنز کے اوپر ہے اور فالٹ لائن کا مطلب یہ ہے لاکھوں انسان بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔ آفات کو روکا تو نہیں جا سکتا مگر اپنے طور طریقے، طر ز زندگی، تعمیرات کا انداز بدل کر نقصان کو کم از کم سطح پر رکھا جا سکتا ہے۔ یہ کام صرف حکومتی ادارے ہی نہیں کر سکتے بلکہ اس کے لیے سوسائٹی کا تعاون بھی از حد ناگزیر ہوتا ہے۔ اگر سوسائٹی پہلے ہی کسی ایسے حادثے کی زخم خوردہ ہو تو اس کی ذمے داری دوچند ہوتی ہے۔ ملک کے تمام حکومتی اداروں کو نہ صرف اس خطرے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے بلکہ عوام کو بھی حفاظتی تدابیر میں شریک کرنا چاہیے تاکہ خدانخواستہ زلزلے کا کوئی اور جھٹکا ہمارے لیے 8اکتوبر کی طرح تباہی کا استعارہ اور علامت نہ بن سکے۔