کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) شہر میں چھوٹے بڑے 600 برساتی نالوں پر تجاوزات کی بھرمار، نالہ صفائی کے نام پر بلدیہ عظمیٰ کراچی نے کروڑوں کے فنڈز ہڑپ کر لیے ، شہر کے برساتی نالے تاحال بند پڑے ہیں۔ سندھ حکومت، بلدیہ عظمیٰ کراچی ، ضلعی بلدیاتی اداروں اور سرکاری و نجی اداروں نے مختلف برساتی نالوں پر ہزاروں عمارتیں، مارکیٹیں، پارکنگ لائٹس اور تجا وزات قائم کردی ہیں جنہیں ہٹانا حکومت کے لیے مشکل ہو گیا ہے، شہر میں چھوٹے بڑے 600 سے
زائد نالوں کا برساتی پانی لیاری و ملیر ندی میں گرتا ہے تاہم ان نالوں پر گزشتہ 30 برس کے دوران تجاوزات کی بھرمار ہوگئی ہے ، صوبائی و بلدیاتی اداروں نے برساتی نالوں کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور ان پر چھتیں ڈال دیں تو نجی اداروں کے مالکان اور شہریوں نے بھی نالوں کو لوٹ کا مال سمجھتے ہوئے جس کا جہاں بس چلا ان نالوں پر دکانیں اور رہائشی مکانات تعمیر کردیے ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی نے اردو بازار، لنڈا بازار، پیپر مارکیٹ، حیدری مارکیٹ، جوبلی مارکیٹ، ستارہ مارکیٹ، مچھی میانی مارکیٹ کھارادر، ہوتی مارکیٹ رنچھوڑ لائن، بہادر شاہ مارکیٹ، اورنگزیب مارکیٹ، گوشت مارکیٹ گرومندر، پارکنگ سائٹ ایم آر کیانی روڈ نالوں پر قائم کر رکھی ہیں۔ سندھ حکومت نے نیو سندھ سیکرٹریٹ، صوبائی محتسب کے دفاتر اور سرکاری اسپتال نالوں پر تعمیر کیے ہیں اسی طرح وفاقی اردو یونیورسٹی عبدالحق کیمپس کے کچھ بلاکس بھی نالوں پر قائم ہیں جبکہ گلشن اقبال بلاک 13۔D میں ضیا الحق کالونی کے نالے پر بھی دکانیں بن چکی ہیں۔ سابق ٹاؤن ناظمین کے دور میں نالوں پر دکانیں تعمیر کرکے فروخت کردی گئیں اور نجی اداروں نے بھی نالوں پر بلند عمارتیں اور شہریوں نے اپنی ضرورت کے تحت نالوں پر رہائشی مکانات تعمیر کردیے ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ بلدیاتی ادارے جزوی طور پر کھلے نالوں کی مختلف مقامات سے صفائی کرتے ہیں جو ناکافی ہے، نالوں پر ان پختہ تعمیرات کی وجہ سے مذکورہ مقامات پر نالوں کی صفائی نہیں ہوپاتی جس کی وجہ سے یہاں سالہا سال سے جمع ہونے والا کچرا برساتی پانی کے بہاؤ کو روک دیتا ہے بارشوں کے دوران نالے چوک ہونے کی وجہ سے مختلف مقامات پر ابل پڑتے ہیں اور برساتی پانی کی نکاسی نہ ہونے سے اہم شاہراہیں اور نشیبی علاقے زیر آب آجاتے ہیں جس کا عذاب شہریوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔ نیوکراچی سے شروع ہوکر لیاقت آباد اور گلشن اقبال کی متوسط طبقے کی رہائشی آبادی سے ہوتے ہوئے کلفٹن جیسے پوش ایریا تک ہر جگہ ایسے درجنوں نالے موجود ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کہیں اسے ’گجر نالے ‘ کا نام دیا گیاہے تو کہیں یہ نہر خیام‘ کے نام سے ’دستیاب‘ ہے۔ شہر کے یہ نالے باقاعدہ’ بکے’ ہوئے ہوئے ہیں۔ ان پر تجاوزات کی بھرمار ہے اور آج بھی یہ عام قطعہ اراضی کی طرح خریدے اور بیچے جارہے ہیں۔ ماضی میں کئی مرتبہ یہ نالے کئی قیمتی انسانی جانیں لے چکے ہیں ۔ واضح رہے کہ گز شتہ روز عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے شہرکے نالوں کی صفائی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے سینئر ڈائریکٹر ماسٹر پلان محمد سرفراز خان پر شدید بر ہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ شہر کو تباہ کردیا گیا ہے ، نالے بند پڑے ہیں، نالوں پر تجاوزات قائم کرکے شہر کو مکمل ڈبونے کا پلان کر رہے ہیں، ذرا سی بارش نے شہر کو ڈبو دیا مگر کسی نے کچھ نہیں سیکھا۔ کیا اس لیے آپ کو مراعات اور تنخواہیں ملتی ہیں، آپ کو سیدھا جیل بھیج دیتے ہیں۔ عدالت نے کراچی کا اصل ماسٹر پلان طلب کرتے ہوئے نالے کی اراضی پر قائم ہر قسم کی تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا ہے۔