شہر تجاوزات کا جنگل بن گیا،مئیر اور افسران لاتعلق

614

کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ انسداد تجاوزات نے شہر سے تجاوازت ہٹانے کے بجائے تجاوزات کے قیام اور ہٹانے کے چند گھنٹوں بعد دوبارہ قائم ہوجانے پر اپنی بے بسی ظاہر کرنا شروع کردی ہے جبکہ جسارت کی معلومات کے مطابق حال ہی میں تجاوزات مافیا کے تعاون سے ہفتہ واری بھتے میں اضافہ کرکے شام4 بجے کے بعد ٹھیلے اور پتھارے نہ ہٹانے کی یقین دہانی کرادی گئی ہے جس کے بعد شہر کے مختلف علاقے اور سڑکوں پر ٹھیلے وغیرہ لگنا معمول بن چکا ہے جس کے نتیجے میں ٹریفک کا نظام بھی متاثر ہونے لگا ہے۔ ،محمد علی سوسائٹی سے تجاوزات ہٹانے کے لیے وزیراعلیٰ کو مداخلت کرنی پڑی۔ کے ایم سی کے ذرائع کے مطابق میئر اور قائم مقام میٹروپولیٹن کمشنر کی جانب سے مبینہ طور پر محکمہ انسداد تجاوزات کی کارکردگی میں اضافے کے بجائے اس سے چشم پوشی برتی جارہی ہے۔ ساتھ ہی محکمہ اینٹی انکروچمنٹ کو لینڈ سے متعلق افسران کی موجودگی کے باوجود محکمہ چارجڈ پارکنگ اور سابق آکٹرائے ڈپارٹمنٹ کا تجربہ رکھنے والے گریڈ 18 کے بشیر صدیقی کے سپرد کردیا ہے۔ مذکورہ افسر نے مبینہ طور پر ازخود سینئر ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ کی ذمے داریاں سنبھال کر پورے محکمے میں خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند روز سے تجاوزات ہٹائے جانے کے حوالے سے مصنوعی کارگردگی کا اظہار کیا جارہا ہے جبکہ درحقیقت اینٹی انکروچمنٹ کا محکمہ شعبہ ” انکروچمنٹ ” بن چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں سینئر ڈائریکٹر کی آمدنی ہفتہ 30 لاکھ تک ہوگئی ہے جو ماضی قریب میں 20 لاکھ روپے تھی۔ اس حوالے سے جب نمائندہ جسارت نے سینئر ڈائریکٹر کی اسامی پر بیٹھے بشیر صدیقی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ ہمارا کا م تجاوزات ہٹانا ہے جو ہم کم وسائل کے باوجود ہٹادیا کرتے ہیں لیکن قانون کے تحت ہٹائے جانے والے ٹھیلوں وغیرہ کو جب چھوڑا جاتا ہے تو وہ دوبارہ لگ جاتے ہیں انہیں روکنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر قانونی طور پر نجی افراد کو کے ایم سی کے امور میں مداخلت کرنے کی اجازت دینے سے معاملات خراب سے خراب ہوتے جارہے ہیں جبکہ شہر تجاوزات کا جنگل بنتا جارہا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے محمد علی سوسائٹی میں تجاوزات ختم کرنے کے لیے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو خصوصی ہدایت جاری کرنی پڑی جس کے بعد جمعرات کو اس علاقے سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جاسکا۔