سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی گستاخیاں

348

سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں جبکہ حکومتی ماہرین ان کے آگے بند باندھنے میں مصروف ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے سے اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ ادارے سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواد کی تشہیر کا سدباب نہیں کرسکتے تو ان کے لیے اتنا بجٹ کیوں مختص کیا جاتا ہے۔ درحقیقت سوشل میڈیا کے یوں بے لگام ہونے کا سبب خود عوام ہیں۔ دنیا بھر میں اس سے متعلق قوانین موجود ہیں لیکن ہمارے ہاں ذرا سی بات کوبھی اظہار رائے پر پابندی تصورکیا جاتا ہے۔ جن کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی وہ فیس بک وغیرہ پر دل کا غبار نکال لیتے ہیں کسی بھی شخصیت کی وڈیو اپ لوڈ کر کے اس پر تبصرے کے ذریعے تضحیک اور عزت کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں لوگ اپنے مسلمان ہونے کو بھی فراموش کرچکے ہیں۔ دین نے ہر ایک کو خیر پھیلانے کا ذمے دار قرار دیا ہے نہ ہر خبر کو عام کرنے کی اجازت دی ہے۔ بلکہ صرف اولوالامر کو اس کا اختیار ہے۔ سوشل میڈیا کے فوائد سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن کوئی بھی چیز جب اپنی حد سے باہر ہو تو ظلم بن جاتی ہے۔ دوسری طرف صدر پاکستان ممنون حسین نے کہا ہے کہ ملک میں ایسی فلموں کی نمائش نہ کی جائے جن میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا ہو۔ صدر صاحب نے بھی سب سے پہلے پاکستان کا ذکر کیا حالاں کہ بحیثیت مسلمان انہیں ایسی چیزوں پر پابندی لگانی چاہیے تھی جو اسلام کے عقائد اور شعائر کے خلاف ہوں۔ خود ان کی ناک کے نیچے ملکی میڈیا کیا کچھ کررہاہے، اس پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ فلم انڈسٹری کی جانب سے ایسی فلمیں ریلیز کی جارہی ہیں جن میں دین دار طبقے اور خصوصاً حجاب جیسی مقدس چیز کا اعلانیہ مذاق اڑایاگیا ہے۔ ٹی وی پر اخلاق سوز مناظر دکھائے جاتے ہیں لیکن کیا کیا جائے، ترقی کا سفر ہے خواہ کسی بھی حال میں ہو۔ صدر صاحب کا سینسر بورڈ کے اراکین کو متوجہ کرنا ضروری ہے۔ دراصل وہ ملکی میڈیا کو دیکھ کر اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ انہیں غیر ملکی فلموں میں کوئی قابل اعتراض بات نظر ہی نہیں آتی۔ پاکستان کے خلاف ہر ذریعہ ابلاغ سے پروپیگنڈا کرنا دشمن کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے توڑ کے لیے پاکستانی فلم ساز اور ڈراما نگار کیا کررہے ہیں؟