بے قابو جمہوریت یا بدترین آمریت؟

572

ڈائریکٹر جنرل رینجرز سندھ میجر جنرل محمد سعید نے پیر کو مقامی ہوٹل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا کھل کر اظہار کیا کہ ’’ایجنسیوں اور سیاسی جماعتوں کی ملاقاتیں معمول کا حصہ ہیں‘‘۔ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں دونوں سیاسی جماعتوں کو جڑنا تھا جس کو انہوں نے عیاں کردیا کہ یہ سب کچھ ایک چھتری کے تحت ہوا ہے اور یہ چھتری اداروں نے فراہم کی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’جو کچھ بھی ہم کررہے ہیں کراچی کے امن کے لیے کررہے ہیں‘‘۔
ڈائریکٹر جنرل رینجرز کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے معاہدے کے بارے میں اظہار خیال کی ’’وقت‘‘ پر مثال کم ہی ملتیں ہیں۔ بہرحال اس سے یہ ابہام تو ختم ہوا کہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی میں 8اور 9 نومبر کو کیا ہوا تھا، یہ ڈراما تھا، سیاسی چال تھی یا اسکرپٹ تھا۔ جسارت میں 9 نومبر کو شائع ہونے والی اپنی تجزیاتی خبر میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ: ’’ایم کیو ایم اور پی ایس پی میں قربتیں اسٹیبلشمنٹ کی کامیابیوں کا تسلسل ہے‘‘۔ ڈائریکٹر جنرل رینجرز کے بیان سے ثابت ہوا کہ جسارت نے وقت پر درست اطلاعات قارئین تک پہنچا کر صحافت کا بہترین کردار ادا کیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی آپریشن کے بعد شہر کی صورت حال واضح طور پر بہتر ہوئی، رونقیں بحال ہونے کے ساتھ ترقی کا پہیہ بھی چل پڑا ہے۔ اس کا کریڈٹ رینجرز اور دیگر سیکورٹی کے اداروں کو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں اور سیاسی معاملات میں دخل اندازی قومی اداروں کو زیب نہیں دیتا۔ لیکن وطن عزیز میں سیاست دانوں نے یہ تاثر قائم کردیا ہے کہ: ’’سیاست میں سب جائز ہے‘‘۔ حالاں کہ سیاست کے ضابطے بھی ہوتے ہیں اور قوانین بھی۔ جس سیاست کے کوئی اصول و ضابطے نہ ہوں تو وہ سیاست ’’نظام‘‘ کی بہتر کے بجائے اس کی تباہی کا باعث ہوتی ہے۔ ملک کے جمہوری نظام پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تباہی و بربادی کے اصل ذمے دار وہ سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں ہیں جن کے کوئی اصول نہیں ہیں۔ ایسی پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں آمریت قائم ہے، ایسی جماعتوں میں موجود دوسرے اور تیسرے نمبر کے رہنما بھی اپنے مرکزی لیڈر کے خلاف اور اس کے مرضی کے برعکس کچھ بولنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے۔ آج ملک پر جن آمرانہ ذہنیت کے سیاسی رہنماؤں کا غلبہ ہے اس کے خاتمے کے لیے بھی ضروری ہے کہ پورے ’’سیاسی نظام‘‘ کو قابو میں رکھا جائے۔ آج مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف عدالت عظمیٰ کی جانب سے نااہل قرار پانے کے باوجود اس کوشش میں ہیں کہ وہ کسی بھی طرح پارٹی ہی نہیں بلکہ ملک کی باگ دوڑ بھی ان کے ہاتھ رہے۔
بے لگام جمہوری اور غیر اصولی نظام کے نتیجے میں آج ملک میں کرپشن ہی نہیں بلکہ جرائم کو بھی سیاسی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سمیت دیگر میں کرپٹ اور جرائم پیشہ عناصر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں ترقی کی طرف بڑھنے والے ملک صرف وہ ہیں جہاں سیاست اور کرپشن و جرائم دو متضاد چیزیں جانی اور سمجھی جاتی ہیں۔ یہ تو ہمارا ملک ہے جہاں سیاست اور جرائم کا گٹھ جوڑ ہوچکا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’سیاست میں سب جائز ہوگیا‘‘۔
اگر ملک کے مختلف ادوار کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ سب سے زیادہ ملک کو جمہوری دور میں نقصان پہنچایا گیا۔ صرف بیرونی قرضوں کے لحاظ سے پاکستان کے آٹھ درج ذیل ادوار پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ فوجی ادوار میں کے مقابلے میں جمہوری دور میں غیر ملکی قرضے میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ قیام پاکستان سے ایوب خان کے مارشل لا تک۔ پاکستان پر کل قرضہ تقریباً 350 ملین ڈالر تھا۔ ایوب خان کے دور تک تقریباً 170 ملین ڈالر قرض تھا۔پاکستان نے پہلی بار دوسرے ممالک کو قرضے دینے شروع کیے جن میں جرمنی جیسا ملک بھی شامل تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کل بیرونی قرضہ 6341 ملین ڈالر ہوگیا۔ بھٹو دور میں بظاہر ایسے منصوبے بھی نظر نہیں آتے جہاں یہ رقم کھپائی گئی ہو۔ بعدازاں جنرل ضیاء الحق کے دورمیں کل بیرونی قرضہ 12913 ملین ڈالرتھا مگرجنرل ضیاء واحد فوجی حکمران تھا جس نے تقریباً 6572 ملین ڈالر کے بیرونی قرضے حاصل کیے لیکن وہ مسلسل گیارہ سال تک روس جیسی سپر پاور کے خلاف جنگ کرتے رہے، ایٹمی پروگرام کی تکمیل کی اور ایف 16 طیارے خریدنے کے علاوہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ چھوٹے ڈیم بنائے۔ بے نظیر اور نواز شریف کے ادوار میں کل بیرونی قرضہ 39ہزار ملین ڈالرتک پہنچ گیا جب کہ جنرل پرویز مشرف کے 8 سالہ دور میں بیرونی قرضوں میں ریکارڈ کمی ہوئی۔ انہوں نے تقریباً 5000 ملین ڈالر کے ریکارڈ قرضے کم کروائے۔
2008 سے شروع ہونے والے دور میں کل بیرونی قرضہ 48100 ملین ڈالرتک پہنچ گیا۔ آصف زرداری اینڈ کمپنی نے اپنی حکمرانی کے پانچ سال میں 14100 ملین ڈالر کا قرضہ لے کر قرض لینے کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ مسلم لیگ نواز کا دور شروع ہوا تو کل بیرونی قرضہ تقریباً 84ہزار ملین ڈالر ہوگیا۔ اس تقریباً چار سال کے قلیل عرصے میں 35900 ملین ڈالر کا کمر توڑ قرضہ لیا گیا جو پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں لیے گئے کل قرضے کے مساوی ہے۔
یہ قرض ایسی لعنت ہے جو تباہی کا راستہ ہموار کرتی ہے مگر جمہوری دور میں صرف قرضوں کا بوجھ ہی نہیں بڑھا بلکہ کرپشن میں بھی اضافہ ہوا۔ قوم کو یہ بات سوچنے پر مجبور ہے کہ: ’’جمہوریت یا بدترین امریت بہتر‘‘۔ اس لیے موجودہ سیاستدانوں کا سخت احتساب ہی ناگزیر ہے۔