ہر راہ جو اُدھر کو جاتی ہے۔۔۔ 

445

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے دورۂ جنوبی ایشیا کے موقعے پر یہ خبریں عام ہوئی تھیں کہ امریکا نے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت یا کم از کم کشیدگی کی سطح کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس دوران کئی اہم واقعات بھی ہوئے جن سے مفاہمت اور مصالحت کی باتوں کو تقویت مل رہی تھی۔ پاک افغان سرحد سے امریکی جوڑے کی رہائی، کنٹرول لائن پر جھڑپوں میں کمی، کشمیر میں مذاکرات کار کا تقرر، بھارتی نیوی کے گرفتار افسر کلبھوشن یادیو کی بیوی کو انسانی بنیاد پر ملاقات کی اجازت اور پاکستان کے لیے امریکی امداد کولیشن سپورٹ فنڈ کی منظوری اسی بدلی ہوئی فضا کا پتا دے رہے تھے۔اس کے باوجود یوں لگتا ہے کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کی سطح کم ہو جائے اور کچھ تعلقات بھی بحال ہوں مگر تعلقات کی یہ سطح جنرل مشرف کے دور تک نہیں پہنچ سکتی۔ دونوں ملکوں میں وقت کا دھارا آگے نکل گیا ہے۔ بھارت اپنے رویوں میں سختی پیدا کر چکا ہے اور پاکستان اب مونچھ نیچی کرکے معاملات طے کرنے پر تیار نہیں۔ اس کا ایک ثبوت چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل زبیر محمود حیات کے اسلام آباد میں تزویراتی خدشات اور علاقائی جہتوں سے متعلق عالمی کانفرنس سے خطاب کے مندرجات ہیں کہ بھارت سے خوش گوار تعلقات کا راستہ صرف کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے اور اس میں کوئی بائی پاس نہیں۔ کشمیر میں ظلم وستم بڑھ رہا ہے۔ بیس کشمیریوں پر ایک فوجی مسلط ہے۔ جنرل حیات نے دوٹوک انداز میں کہا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف چھوٹی جنگیں شروع کر رکھی ہیں جو کسی بھی وقت بڑی جنگ میں بدل سکتی ہے اور دہلی کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ آگ سے کھیل رہا ہے۔
جنرل زبیر کی طرف سے پاک بھارت معاملات میں کشمیر کی مرکزیت کا اعلان اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو منجمدکرکے بھارت سے تعلقات قائم کرنے کا خواب اب چکنا چور ہو چکا ہے۔ علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل کہا ہے مگر خطے کی سیاست پر کشمیر کی چھاپ سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ کشمیر افغانستان سے بھی اہم ہے کیوں کہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشمکش کا ایک محاذ افغانستان بھی ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کا اصل منبع کشمیر ہے۔ پاکستان کشمیر کے مسئلے کو فراموش کرنے پر تیار ہے نہ اسے فریز کرکے بھارت کے ساتھ نارمل تعلقات چاہتا ہے۔ خود وادی کشمیر کے اندر مزاحمت کی تحریک نسل در نسل جاری اور یہ تحریک پاکستان کو کشمیر سے توجہ ہٹانے نہیں دیتی۔ وقت نے کشمیریوں کو پاکستان کی اور پاکستان کو کشمیریوں کی طاقت ثابت کیا ہے۔ تعلق اور دوستی کی اس دیوار میں دراڑ ڈالنے کی کوششیں ہمیشہ سے جاری ہیں مگر انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ کشمیر میں اگر بھارت معقولیت کا راستہ اختیار کرکے عوامی جذبات کا احترام کرتا اور مسئلے کے حل کے لیے کوئی راستہ تلاش کیا جاتا تو آج افغانستان میں بھی پاکستان اور بھارت کے مفادات میں یوں تضاد پیدا نہ ہوتا جس کا مظاہرہ ہورہاہے۔
پاک فوج کی اعلیٰ ترین شخصیت کی طرف سے یہ کہنا کہ بھارت سے تعلقات کی ہر راہ کشمیر سے ہو کر گزرتی ہے گزشتہ دہائیوں کی کشمیر پالیسی سے اعلان برأت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور امن کے نام پر اچھل کود کرنے والی این جی اوز دنیا کے کئی تنازعات کا حوالہ دے کر مسئلہ کشمیر کو فریز کرنے کی تجاویز پیش کرتی رہی ہے اوراس کے لیے چین اور ہانگ کانگ کی مثالیں دی جاتی رہیں۔ شمالی آئرلینڈ اور اندور ماڈلز کے حوالے دیے جاتے رہے، چار نکاتی فارمولے پیش کیے جاتے رہے مگر یہ سب سرگرمیاں کشمیریوں کی نظروں سے اوجھل رہیں اور وہ اس عمل میں شریک نہیں رہے اس لیے ان کا انجام ناکامی کی صورت میں نکلتا رہا۔ اب پاکستان ماضی کے سارے باب اور نصاب بند کرکے بہت کھل کر یہ بات کر رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو فریز کیا جاسکتا ہے نہ اسے کسی کاسمیٹک تبدیلی اور حل کی نذر کیا جا سکتا ہے۔ جنرل زبیر محمود حیات کے اندازِ بیاں سے تو یہی عیاں ہے۔ اس سے کچھ ہی دن پہلے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کنٹرول لائن پر فاروڈ کہوٹا چڑی کوٹ سیکٹر کا دورہ کیا۔ جہاں انہیں کنٹرول لائن پر بھارت کی جارحانہ کارروائیوں اور اس کے نتیجے میں عوام اور متاثرین کی مشکلات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اس موقعے پر متاثرین کی مشکلات کم کرنے کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے بھی کیے گئے۔
بھارت نے پاکستان کے خلاف جو چومکھی جنگ شروع کر رکھی ہے کشمیر کی کنٹرول لائن اس کا ایک محاذ ہے۔ جہاں بھارتی فوج آئے روز بلااشتعال فائرنگ کرکے بے گناہ عوام کو شہیدکر رہی ہے۔ اس جارحیت کی زد میں معصوم او ر بے گناہ شہری بھی آتے ہیں۔ بھارت اس جارحانہ سرگرمی کا جواز بظاہر سرحد پار دراندازی کو قرار دیتا ہے مگر اصل میں بھارت وادی کشمیر کے عوام کی تاریخ ساز اور بے مثال جدوجہد سے زچ ہو کر اپنا غصہ آزادکشمیر کے عوام پر نکالتا ہے۔ بھارت نے اسرائیل کی مدد سے کنٹرول لائن پر باڑھ بھی تعمیر کی اور چوکسی اور جاسوسی کے اسرائیل ساختہ ہتھیار اور نظام بھی نصب کیا اس کے باوجود وہ کشمیر کی تحریک مزاحمت کا زور توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اب کشمیر میں حالات پر قابو پانے اور کشمیریوں کی جدوجہد کو فلسطینی اسٹائل میں کچلنے کے لیے اسرائیل کھل کر بھارت کی مدد کو آرہا ہے۔ جس کا ایک ثبوت اسرائیلی فوجی کمانڈر کا ایک وفد کے ہمراہ کنٹرول لائن کا حالیہ دورہ ہے۔ اس وفد نے اودھم پور میں بھارت فوجی مرکز میں قیام کیا تھا۔ اس کے بعد بھارتی ایس ایس جی کا پینتالیس رکنی دستہ اسرائیل سے کراس بارڈر اور کاونٹر ملٹنسی آپریشنز سمیت دیگر معاملات کی تربیت حاصل کرنے کے لیے تل ابیب روانہ ہو چکا ہے۔ امریکی چھتری تلے اسرائیل اور بھارت کا یہ فوجی اتحاد خطرے کی گھنٹی ہے۔ بھارت کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ کشمیر کی تحریک مزاحمت کے لیڈروں کو اسی طرح آزادکشمیر میں نشانہ بنائے جس طرح اسرائیل نے حماس اور اسلامی جہاد کی قیادت کو برسوں پہلے میزائلوں کا نشانہ بنایا تھا اور حماس کے لیڈر شیخ احمد یاسین بھی ایسے ہی ایک میزائل کا شکار ہوئے تھے مگر پاکستان نے اس حوالے سے ایک ریڈ لائن کھینچ رکھی ہے اور بھارت کو اس کا بخوبی اندازہ ہے۔ پاکستان یا آزادکشمیر کی حدود میں بھارت کی ایسی کارروائی کھلی جارحیت تصور ہو گی اور جارحیت کا جواب لمحوں کی تاخیر کے بغیر اسی لہجے میں دیا جائے گا۔