کراچی( رپورٹ:منیر عقیل انصاری) کراچی کے شہریوں کے لیے سرکلر ریلوے کا منصوبہ ایک خواب بن کر رہ گیاہے۔ شہری ٹرانسپورٹ کے فرسودہ نظام کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہیں،کراچی کا سب سے بڑا ٹرانسپورٹ کامنصوبہ کراچی سرکلر ریلوے شہریوں کے لیے اب بھی ایک خواب ہے،حکومت سندھ،محکمہ ریلوے، شہری حکومت اور وفاقی حکومت کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے سرکلر ریلوے کے ٹریک پر تاحال تجاوزات ختم نہیں کی جا سکی ہیں جس کے باعث25 دسمبر کو منصوبے کا سنگ بنیاد کھٹائی میں پڑنے کا خد شہ ہے۔ 43 کلومیٹر ٹریک پر صرف 40 فیصد تجاوزات ختم کر ائی جاسکیں ہیں،کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کو چند ماہ پہلے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شامل کیا گیا ہے۔ سرکلر ریلوے منصوبے کی کل لمبائی 43 کلومیٹر ہے جس میں سے 13 اعشاریہ 43 کلومیٹر مرکزی ریلوے لائن کے ساتھ مشترک ہے جبکہ 29 اعشاریہ 69 کلومیٹر سرکلر ریلوے کا حصہ ہے۔ منصوبے کے لیے کل 360 ایکڑ زمین کی ضرورت ہے جس میں سے 260 ایکڑ زمین پاکستان ریلوے جبکہ 100 ایکڑ مرکزی لائن کی ہے ۔ منصوبے کی 67 ایکڑ زمین پر تجاوزات موجود ہیں جن میں سے 47 ایکڑ زمین سرکلر ریلوے کی جبکہ 20 ایکڑ مرکزی لائن کی ہے۔ منصوبے کی زیر قبضہ زمین پر 4 ہزار 653 گھر اور 2 ہزار 997 دیگر تجاوزات قائم ہیں۔ سرکلر ریلوے کے روٹ کے تقریباً 60 فیصد حصے پر تجاوزات قائم ہیں اور منصوبے کو تب ہی عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے جب ان تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔ کراچی سرکلر ریلوے کی تعمیر نو کے منصوبے میں ریلوے اسٹیشن کی تعمیر ومرمت کا کام بھی کیا جائے گا۔ دوسری جانب نئے منصوبہ کے تحت کراچی سرکلر ریلوے کے 14اسٹیشن بالائی ہوں گے اور 10اسٹیشن زیر زمین تعمیر کیے جائیں گے‘ بالائی گزرگاہ ڈرگ روڈ اسٹیشن ‘ جوہر اسٹیشن ‘ الہ دین اسٹیشن‘ گیلانی اسٹیشن‘ یاسین آباد اسٹیشن‘ نارتھ ناظم آباد اسٹیشن‘ اورنگ آباد اسٹیشن‘ ایچ بی ایل سائٹ اسٹیشن‘ منگھوپیر اسٹیشن‘ سائیٹ اسٹیشن‘ شاہ عبدالطیف اسٹیشن‘ بلدیہ اسٹیشن‘ لیاری اسٹیشن اور کراچی کینٹ اسٹیشن پر تعمیر ہوں گے جبکہ نیپا اسٹیشن‘ لیاقت آباد اسٹیشن‘ وزیر مینشن اسٹیشن‘ ٹاور اسٹیشن‘ سٹی اسٹیشن‘ پی آئی ڈی سی‘ ڈپو ہل اسٹیشن ‘ مہران ‘ چنیسر اور کارساز اسٹیشن پر زمینی ٹریک کی تنصیب کی جائے گی۔ اس منصوبے سے 2020 ء میں یومیہ 5 لاکھ سے زائد مسافر سفر کرسکیں گے جبکہ 2030ء تک یہ تعداد7 لاکھ سے تجاوز کر جا ئے گی۔کراچی سرکلر ریلوے کے 3 منصوبے سی پیک میں شامل ہونے کے بعد چینی حکومت منصوبوں کی تکمیل کے لیے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی، یہ رقم سی پیک کے مغربی روٹس سے منسلک 3اضافی سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کی جانی تھی۔ حکومت سندھ چین کے تعاون سے کراچی سرکلر ریلوے کی تعمیر 10سال کے عرصہ کے بجائے اب آئندہ 3 برسوں میں ستمبر 2020ء تک مکمل کرے گی۔منصوبے پر تقریباً 270 ارب روپے لا گت آئے گی ۔ کراچی سرکلر ریلوے کی تعمیرنو کا منصوبہ 43.2 کلومیٹر پر محیط ہے جس میں 14.94 کلومیٹر زمینی اور 28.18 کلومیٹر بالائی گزرگاہ تعمیر کیے جا نے کا منصو بہ ہے۔3ماہ قبل کراچی سرکلر ریلوے کے اطراف غیرقانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خاتمے کے لیے کمشنر کراچی کو ذمے داری سونپی گئی تھی لیکن بعد میں یہ کام محکمہ ریلوے کے سپرد کردیا گیا ہے۔ناظم آباد‘ غریب آباد‘ گلشن اقبال‘ لیاری سمیت کراچی سرکلرے ریلوے کے روٹ پر آنے والے دیگر علاقوں میں ماضی میں جب بھی تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا گیا تو متعلقہ اداروں کو وہاں کے رہائشیوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی میں اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔لوگوں نے ان مقامات پر اپنے مکانات تعمیر کرلیے اور کئی برس سے وہ یہاں پر آباد ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کا سنگ بنیاد وزیراعلیٰ سندھ کی دی گئی تاریخ 25 دسمبر مشکل نظر آرہا ہے۔اس حوالے سے پاکستان ریلوے ورکرز یونین کے مرکزی چیئرمین منظور رضی نے جسارت سے بات چیت کرتے ہو ئے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے منصو بے پر حکومت سندھ،محکمہ ریلوے، شہری حکومت اور وفاقی حکومت کی آپس کی لڑا ئی سے کراچی کے لا کھوں شہری سفری سہولت سے محروم ہیں،کراچی سر کلر ریلوے سے روزانہ کر اچی کے 7 لا کھ شہری سفر کر سکیں گے۔ کراچی سرکلر ریلوے کو سی پیک میں شامل ہو ئے 3ماہ سے زائد ہو گئے ہیں لیکن آپس کی لڑئی کی وجہ سے منصوبہ تاحال تا خیر کا شکا ر ہے، شہر میں 20سال پرانی بسیں چل رہی ہیں۔ سرکلر ریلوے سے شہریوں کے ٹرانسپورٹ مسائل حل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سند ھ حکومت اپنے اعلان کے مطا بق منصو بے کو 3سال میں مکمل کر کے سرکلر ریلو ے کو چلائے تا کہ کراچی کے شہریوں کی ٹر انسپورٹ ما فیا سے جان چھڑائی جاسکے اور وہ سستی سفری سہولیات سے مستفید ہو سکیں۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ ہاؤس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت سی پیک کی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کی تیاری سے متعلق اجلاس ہوا، جس میں وزیراطلاعات ناصر شاہ، چیف سیکرٹری رضوان میمن و دیگرافسران نے شرکت کی۔اس موقع پر وزیراعلیٰ نے کراچی سرکلر ریلوے پر تاخیر میں اپنے تحفظات کا اظہار کردیااور کہا کہ وفاقی محکمے کے حکام ریلوے ٹریک کا ایک حصہ دینا نہیں چاہتے، زمین سندھ حکومت کی ملکیت ہے، جس پر پہلا حق کراچی کے عوام کا ہے۔ان کا کہناتھاکہ ریلوے افسران منصوبے کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی والوں نے بہت دھوکے کھائے ہیں ، مزید دھوکے کھانے نہیں دوں گا ، منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا تو ذمے دار ریلوے اور وفاقی حکومت ہوگی۔