پاکستانی قومی اسمبلی نے ختم نبوت حلف نامہ بحال کرنے اور انتخابی اصلاحات اور نئی حلقہ بندیوں کے بل منظور کرلیے ہیں۔ دوسری طرف اسلام آباد میں ختم نبوت کے مسئلے پر دھرنا بھی جاری ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم اور حکومت کے احکامات کے باوجود یہ دھرنا جاری ہے۔ اس متنازعہ فیصلے یعنی ختم نبوت حلف نامے میں تبدیلی پر جس وقت جماعت اسلامی کے ارکان نے اعتراض کیا اور اس چوری کو ختم کرنے پرزور دیا۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ کے اعتراض کے بعد دیگر ارکان نے اس مسئلے پر شدید احتجاج کیا لیکن پاکستانی میڈیا نے اس سارے عمل کا سہرا ایک دو ارکان کے سر باندھا اور اب ایسا تاثر بن چکا ہے کہ جیسے یہ سارا کام ان ہی لوگوں نے کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے اس اسمبلی میں چند ہی ارکان ہیں لیکن ان کے ٹھوس کام نے قوم کے بہت سے مسائل حل کیے ہیں بہرحال اس بات سے قطع نظر کہ بنیادی کام کس نے کیا پاکستانی قوم کے لیے خوش خبری ہے کہ پرانا حلف نامہ بحال ہوگیا ہے۔ اسلام آباد میں دھرنا دینے والوں کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ حلف نامہ تو بحال ہوگیا ہے لیکن اس سارے مسئلے کے پیچھے جو لوگ ہیں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہورہی۔ انہوں نے وزیر قانون زاہد حامد کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے جو اصولی طور پر درست ہے۔ کیوں کہ یہ شرارت کرنے والے فرد کے طور پر ان ہی کا نام لیا جارہا ہے۔ شرارت کرکے بہت باریک سی تبدیلی کی گئی تھی اور صرف یہ لکھا گیا ہے کہ میں اعلان کرتا ہوں ۔ میں حلف اٹھاتا ہوں یا حلفیہ اقرار کرتا ہوں حذف کردیا گیا تھا۔ اس طرح قادیانیوں کو مسلمانوں کی انتخابی فہرست میں نام درج کرانے کا موقع دیا جارہا تھا۔ اب جبکہ یہ شق پہلی حالت میں بحالی ہوگئی ہے اس پر گہری نظر رکھنی ہوگی کیوں کہ قانون ختم نبوت میں ترمیم اسمبلی کے اراکین نے ہی کی تھی اور وہی یہ کام کررہے تھے یا ان سے کوئی یہ کام کروا رہا تھا اس لیے جب تک یہ ترمیم گزٹ میں نہ آجائے، اس فیصلے کو نئے الیکشن آرڈر 2017 میں شامل نہ کرلیا جائے اس وقت تک خطرہ نہیں ٹلا ہے۔ بعد میں انتخابات کے وقت پتا چلے گا کہ الیکشن آرڈر میں یہ ترمیم شامل نہیں ہے اس لئے حلف نامے کے بجائے اسی طرح ترمیم شدہ الفاظ والا فارم بھرا جائے گا۔ اگلا مرحلہ عوام کی ذمے داری سے متعلق ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے عقائد کے حوالے سے ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد غیر متعلق رہتی ہے انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کہاں کہاں غیر اسلامی قوانین کی حمایت کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں۔ زیر بحث ترمیم بھی صرف اس لیے منظور ہوئی تھی کہ ارکان کو یہ ہدایت ملی تھی کہ حکومتی ترمیم ہے اسے منظور کرلیا جائے۔ بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے حوالے سے انسانی عقل کچھ نہیں کرسکتی۔ قادیانیوں کا مسئلہ انگریز کے زمانے سے چل رہا تھا لیکن 1970کے عشرے کے اوائل میں قادیانیوں نے ربوہ کے قریب اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں پر حملہ کر کے اور تشدد کر کے اپنی ساری سازشوں کا پردہ چا ک کرنے اور اپنے باطل عقائد کے خاتمے کی راہ ہموار کرلی تھی اسی طرح اس مرتبہ پوری اسمبلی کی عقل خبط تھی صرف چند اراکین جاگ رہے تھے۔ قادیانیوں نے یہ ترامیم کروا کر اپنے آپ کو مسلم انتخابی فہرست میں شامل کرنے کی سازش کی تھی لیکن اب ان کی اس سازش کی ناکامی سے ان کے بارے میں مستقل فیصلہ کرنے کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے۔ اب قادیانیوں کی کسی بھی کوشش کی راہ روکنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ لیکن اصل کام بہرحال عوام کو کرنا ہے۔ وہ جس قسم کے لوگوں کو محض پارٹی سے محبت یا لیڈر کے سحر کی وجہ سے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں وہ اسمبلیوں میں جا کر ملک و قوم کی خدمت کے بجائے ایجنڈے بھگتاتے ہیں۔ عجیب عجیب تضادات سامنے آتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے متنازع ارکان اسمبلی جنہیں الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے نامزد کیا تھا وہ مردم شماری کے نتائج پر ہنگامہ کرتے ہیں اور حکومت سے معاملات طے کر کے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق بل منظور کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اگر عوام انتخابات کے موقع پر سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں تو بہت سے مسائل سے از خود نجات مل جائے گی۔ مثلاً چائنا کٹنگ، بھتا خوری، بھتا نہ دینے پر فیکٹری میں آگ لگوانا، اغوا برائے تاوان، ٹھیکوں میں بدعنوانی، جعلی ترقیاں، بھوت ملازمین اور اس طرح کے درجنوں جرائم ۔ ان سب کے پیچھے اور آگے یہی ارکان اسمبلی ہوتے ہیں ۔ یہ اسمبلی میں جا کر یہی کرتے ہیں ۔ عوام اپنے انتخابی اسلوب کوبد لیں، نمائندے کے چناؤ کے وقت حب الوطنی، ایمان داری اور حق کا ساتھ دینے والوں کو منتخب کریں تو بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا وقار بلند ہو جائے۔ سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ ارکان قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی بڑی تعداد ایمان دار نہیں ہے۔ بدعنوانی سے پاک نہیں ہے اور پڑھی لکھی بھی نہیں ہے۔ بس ہاتھ اٹھانے اور ہاں کہنے کے کام ان سے لیے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔