دوسری اور آخری قسط
مولانا الطاف حسین حالی نے ’’مسدس حالی‘‘ میں زمانہ جاہلیت کا ذکر کرتے ہو ئے بیان کیا ہے کہ وہ ایک ایسا زمانہ تھا جب گمرہی اپنے عروج پر تھی۔ ظلم صفت بن چکا تھا۔ انسانی خون اتنا ارزاں تھا کہ جب چاہا پانی کی طرح بہادیا، بد اخلاقی شیوہ صد افتخار بن چکی تھی۔ معاشرے میں عورت کی نہ تو عزت تھی اور نہ ہی اسے انسانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ خواتین اور غلاموں پر بد ترین تشدد کیا جاتا تھا اور جہالت کا عالم یہ تھا کہ اپنی بچیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا۔ اگر ان تمام تاریخی حوالوں کو سامنے رکھا جائے تو ہمارا ’’آج‘‘ اس دور کے ’’کل‘‘ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ آج بھی ایسا ہی کچھ ہے۔ حالات جس انتہا پر تھے ان کا بدل جانا از حد ضروری تھا ورنہ یہ زمیں آدم خوروں سے پٹ جاتی۔ ایسے گھور اندھیروں میں آپ ﷺ کا ظہور ہوا ۔ جہالت کی ظلمت جھٹ کر رہ گئی اور ہر سو اسلام کا نور غالب آتا چلا گیا۔ اس دور کا ذکر حالی نے بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے۔ جناب رسالت مآبؐ کی شان میں جو چند بند حالی نے کہے ہیں ان میں عشق نبی کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے جہاں کہیں اس موضوع پر لکھا ہے قلم توڑ دیاہے۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کار سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کام زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مسلمان کا جاہ و جلال اور عزت و حرمت اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے تھی ، سو آج بھی تباہی و بربادی کا وہی عالم ہے۔ ایمان دلوں سے مفقود ہوتا جارہا ہے، نفرت محبت کی جگہ لی چکی ہے، علاقائی، لسانی اور نسلی تعصب اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اس بنیاد پر ایک دوسرے کی جان تک لینے کیلیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ مسلمانوں نے مذہب سے روگردانی اختیار کرلی ہے اور عیش و عشرت میں پڑ کر اپنے فرائض سے چشم پوشی کرنے لگے ہیں۔ ان کی تمام شان و شوکت اور عظمت و برتری خاک میں مل چکی ہے اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ وہ محض نام کے مسلمان رہ گئے۔اُس دور کے مسلمانوں کی اسی کیفیت کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے وہ کتنے خوبصورت انداز اور دل سوزی کے ساتھ کچھ یوں گویا ہوتے ہیں
وگرنہ ہماری رگوں میں لہومیں
ہمارے ارادوں میں اور جستجو میں
دلوں میں زبانوں میں اور گفتگو میں
طبیعت میں فطرت میں عادت میں خو میں
نہیں کوئی ذرہ نجابت کا باقی
اگر ہو کسی میں تو ہے اتفاقی
مسدس حالی میں جہاں مسلمانوں کی دگرگوں صورت حال کا ذکر کیا گیا وہاں حالی نے ان کی اس زباں حالی کے اسباب بھی بیان کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور رسول ﷺ کے ذریعہ انسانوں کو اچھی طرح آگاہ کر دیا ہے کہ تمہاری فلاح و بہبود صرف اور صرف اس بات میں پوشیدہ ہے کہ تم اس اللہ کے مرضی کے آگے اپنی ساری منشا کو جھکادو۔ جس جس بات سے اس نے منع کیا ہے اس سے اپنے آپ کو روک لو اور صرف اسی راستے پر چلو جس پر اس نے چلنے کا حکم دیا ہے۔ جب جب مسلمان اللہ کے مقرر کردہ اصلوں اور راستوں پر چلتے رہے، دنیا میں ان کا علم لہراتا رہا لیکن جیسے ہی مسلمانوں نے اس سے روگردانی اختیار کی، تباہی و بربادی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ حالی کہتے ہیں کہ اللہ سے رجوع کرنے میں ہے عافیت و فلاح ہے۔ افراد ایک کامیاب زندگی گزارنا چاہتے ہو تو پھر اسی کا بندہ بن کر رہنا پڑے گا ورنہ دردناک انجام کو اپنا منتظر پاؤگے۔ یہی وہ اصول ہے جس پر چل کر دونوں جہانوں میں کامیابی تمہارا کا مقدر بن سکتی ہے۔ مولانا تمام خرابیوں کی جڑ مذہب کے بنیادی اصولوں سے ناو اقفیت کو قرار دیتے ہیں اور اس کا حل تو حید پر عمل پیرا ہونے میں نکالتے ہیں۔
کہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لائق
زباں اور دل کی شہادت کے لائق
اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق
لگائو تو لو اس سے اپنی لگاؤ
جھکائو تو سر اس کے آگے جھکاؤ
مسدس حالی میں حالی نے مسلمانوں کی مذہب سے دوری اور ان کی غفلت کا ذکر بہت درد کے ساتھ کیا ہے۔ ان پر لادینیت کے بادل منڈ لا رہے ہیں، دوسری اقوام ان پر غالب ہوتی جا رہی ہیں، ان کے ہاتھوں سے اقتدار کی باگ ڈورنکلتی جا رہی ہے۔ ان کی اس غفلت کا دنیا پورا پورا فائدہ اٹھا رہی ہے ۔ المیہ پر المیہ یہ ہے کہ کسی کو بھی اپنی اس تباہی و بربادی کا احساس نہیں ہے۔ اپنی عزت کو نیلام کر چکے ہیں۔ چند سکوں کی خاطر اپنی ماؤں بیٹوں کو فروخت کرنے پر نہ کوئی شرم ہے اور نہ ملال۔ پوری دنیا کے آگے ہاتھ پھیلائے قرض پر قرض لیے جا رہے ہیں اور قوم و ملک کو گروی رکھواتے جا رہے ہیں۔ جس سمت بھی جاتے ہیں دنیا ان کو دیکھ کر ہنستی ہے لیکن شرم ہے کہ ان سے کوسوں دور ہے۔ حالی اس طرز عمل اور فکر پر بہت دکھی ہیں، وہ مسلمانوں کو اس خواب غفلت سے بیدار کرنا چاہتے ہیں اور احساس دلا رہے ہیں کہ اگر یہی حالات رہے تو
بچو گے نہ تم اور نہ ساتھی تمہارے
اگر نائو ڈوبی تو ڈوبیں گے سارے
حالی نے اس بات کی بھرپور کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کو ان کی تباہی و بربادی سے آگاہ کیا جائے اور ان کی غیرت کو جگایا جائے۔ مسلمان اس بات پر آمادہ کریں کہ ان کی غفلت کی وجہ سے دنیا ان کے ساتھ یہ سلوک کر رہی ہے۔ مسلمان ممالک میں مسلمانوں کو آپس میں الجھایا جا رہا ہے۔ مسلمان مسلمان آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔ مسلمان یہ بات سوچنے کیلیے تیار ہی نہیں ہیں کہ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے، شام ایراق اور مصر کس تباہی و بربادی کا شکار ہیں اور مسلمان دشمن طاقتیں ان کی آپس کی اس لڑائی اور ایک دوسرے کا خون بہانے کی وجہ سے ان پر غالب آتی جا رہی ہیں۔ ان تمام حالات کے باوجود انھیں کسی بھی قسم کوئی فکر یا شرمندگی نہیں بلکہ وہ اتنے مطمئن اور خوش ہیں جیسے یہ سب مناظر ان کے پسندیدہ مناظر ہوں۔ حالی فرماتے ہیں:
کوئی ان سے پوچھے کہ اے ہو ش والو
کس امید پر تم کھڑے ہنس رہے ہو
مسدس حالی میں قوم کی ان ساری خامیوں اور خرابیوں کا ہی ذکر ہے۔ اگرچہ پہلا حصہ ایسے دل شکن اشعار پر ختم ہوتا ہے کہ انسان کی آس ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن شاعر کو خود بھی اس کا احساس ہوتا ہے۔ امید کو بڑھانا ہے اور ضمیمہ کی صورت میں اشعار کا اضافہ کرتا ہے۔ ضمیمہ کی ابتداء میں امید سے ایسے پر جوش انداز میں خطاب ہے کہ مایوسی کے سارے بادل چھٹ جاتے ہیں۔
بس اے ناامیدی نہ یوں دل جلا تو
جھلک اے امید اپنی آخر دکھا تو
ذرا ناامیدوں کی ڈھارس بندھا تو
فسردہ دلوں کے دل آکر بڑھا تو
ترے دم سے مردوں میں جانیں پڑی ہیں
جلی کھیتیاں تو نے سرسبز کی ہیں
اگر غور کیا جائے تو آج کا دور، دورِ حالی سے کہیں زیادہ زبوں حال ہے۔ کبھی کبھی میں خیال کرتا ہوں کہ دورِ حالی بیشک ابتلا و آزمائش کا دور رہا ہوگا اور چہارجانب سے طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کو گھیرے چلی آرہی ہونگی لیکن اس دور کے لوگ کتنے خوش قسمت تھے کہ ان کے درمیان حالی، سرسید احمد خان اور اکبر الہ آبادی جیسے مصلح قوم اور بڑے بڑے علما و فقہا موجود ہوا کرتے تھے۔ اب جبکہ مسلمانوں کو چاروں جانب سے گھیرا جا چکا ہے، ہر جانب مسلمانوں کے خون سے ہولیاں کھیلی جارہی ہیں، بمباریاں ہو رہی ہیں، عورتوں، بچوں اور معصوموں کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں، ہرجانب قیامت صغریٰ کے مناظر ہیں، ہرسو اہ و بکا بلند ہو رہی ہے، فرنگیوں نے ان کو بری طرح اپنی سازش میں جکڑ لیا ہے لیکن دور دور تک کوئی سرسید احمد خان، اکبر الہ آبادی، مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال، محمد علی جناح اور الطاف حسین حالی دکھائی نہیں دے رہا۔ کوئی ضرب کلیم، ارمغان حجاز، بانگ درا، شاہ نامہ اسلام اور مد و جزر اسلام(مسدس حالی) نہیں جس کو بڑھ کر مردہ دلوں میں جان ڈالی جا سکے، دل کو گرمایا جا سکے اور مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا جاسکے۔
ٹی وی کھولو تو چیخ و پکار، اخبارات پڑھو تو دل بیٹھنے لگے، گھر میں حبس، بازارمیں اخلاق باختہ مناظر۔ کوئی شے اگر نہیں ہے تو وہ ایمان نہیں ہے ۔
یہ دور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کوئی حالی آجائے، کوئی مدجزراسلام سناجائے، دلوں کو تڑپاجائے، لہو کو گرما جائے، ایمان کی حرات پیدا کرجائے، مردہ دلوں کو زندگی کی حرارت بخش جائے لیکن لگتا ہے کہ ہم نے دل و دماغ کی زمینوں کو اتنا بنجر کرکے رکھ دیا ہے کہ کہیں سے امیدوں کے شجر کا کوئی پودا بھی پھوٹتا نظر نہیں آرہا اور گھور تاریکی میں آس کاکوئی ایک دیا بھی ٹمٹماتا دکھائی نہیں دے رہا۔
پاکستان ایک مشکل گھڑی میں گھرکر رہ گیا ہے۔ چاروں جانب سے سیاہ اور دبیز سائے اسے نگلنے کیلیے منہ پھاڑے کھڑے ہیںاور قوم غارمذلت کے کنارے جا لگی ہے لیکن قوم ہے کہ آنکھیں کھولنے کیلیے تیار ہی نہیں۔ کاش ایسے میں کوئی حالیؔ آجائے اور ’’مدوجزراسلام‘‘ سی کوئی ’’مسدس‘‘ سناجائے۔