وقت

143

ذکیہ فرحت

وقت آیا ہے بے وفا یارو
نہ کسی پر بھی اعتبار کرو
کون پوچھے قاعدہ قانون
دل جو چاہے وہ اختیار کرو
یوںوہ دامِ فریب دیتے ہیں
جان کیونکر نہ تم نثار کرو
ہے مشکل مگر ہے ممکن بھی
کر سکو تو سب سے پیار کرو
کس کو وعدہ وفا ہوا ہے کبھی
وعدہ کیوں تم نہ بار بار کرو
حسنِ ظاہر پہ جو مچل اٹھے
ایسے دل کا نہ اعتبار کرو
وقت بھر دے گا سارے زخموں کو
وقت آنے کا انتظار کرو