پچھلے ہفتے کراچی کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں ادارہ برائے مستحکم ترقی و حکمت عملی (SPDI) اور عالمی بینک کے تعاون سے پاکستان کی رواں ترقی کی صورت حال 2017 پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں علم معاشیات سے تعلق رکھنے والے طلبہ، اساتذہ اور محقق، کاروباری و تجارتی افراد، کالم نگار، تجزیہ نگار اور پاکستان کی معیشت، تجارت اور صنعت پر غور و فکر کرنے والے لوگوں نے شرکت کی۔ اس پروگرام میں ایک طرف تو ملک کی مجموعی معاشی صورت حال پر عموماً اور برآمدات کی صورت حال و چھوٹے کاروبار (entrepreneurship) پر خصوصاً تقاریر اور پینل ڈسکشن کیے گئے۔
مجموعی طور پر معاشی ترقی کے حوالے سے آنے والے برسوں میں مثبت توقعات کا اظہار کیا گیا جس کے مطابق سال 2017-18 میں معاشی ترقی کی شرح 5.5 فی صد جب کہ سال 2018-19 میں 5.8 فی صد رہے گی اور اس کی بنیادی وجہ ملک میں اشیا خدمات کی مجموعی طلب میں اضافہ بتایا گیا ہے جب کہ دوسری طرف مالیاتی خسارہ (fiscal deficit) اور رواں جاری خسارہ (current account deficit) میں اضافہ ہوگا اور اس کی بنیادی وجوہات میں درآمدات میں مسلسل اضافہ، ترسیلات زر میں کمی اور بیرونی امداد میں کمی شامل ہیں۔
معاشی ترقی اور خوشحالی میں چھوٹے کاروبار کی بڑی اہمیت ہے جو عام طور پر شخصی ملکیت یا شراکت داری کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں اس سے ایک تو بڑی تعداد میں لوگ کسی نہ کسی روزگار سے وابستہ ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات مزید افراد کو کام پر رکھ لیتے ہیں، اس طرح بیروزگاری میں کمی آتی ہے دوسری طرف نوجوان اور تعلیم یافتہ نسل اپنی جدت طرازی اور تخیل پروری سے نئی نئی مصنوعات مارکیٹ میں لے آتی ہے اور برآمد کرنا شروع کردیتی ہے جس سے مجموعی قومی پیداوار (GDP) اور برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں پروگرام میں دی گئی رپورٹ کے مطابق ملک کی موجودہ افرادی قوت ایک بڑا حصہ کسی چھوٹے یا درمیانے سائز کے کاروبار میں لگا ہوا ہے جب کہ بڑی تعداد میں خود روزگار میں لگے ہوئے افراد اپنے کسی خاندانی بزنس میں ساتھ ساتھ میں اس میں نوجوانوں کی شرکت 18 فی صد اور درمیانی عمر کے افراد 41 فی صد ہیں لیکن یہ افرادی قوت جو اپنے گھر کے، خاندان کے یا کسی جاننے والے کے کاروبار میں جو اپنا وقت لگارہی ہے اس کی بڑی تعداد باقاعدہ کسی اجرت سے محروم ہے اور یہ معاملہ دیہاتی علاقوں میں زیادہ ہے۔ خواتین کی افرادی قوت کا بڑا حصہ جو گھر یا خاندان کی کسی معاشی جدوجہد میں ساتھ دے رہی ہیں ان کی کوئی متعین اور باقاعدہ اجرت کی ادائیگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستانی آبادی کے وہ افراد جو ہمت کرکے اپنی صلاحیت اور وسائل پر تکیہ کرکے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع بھی کردیتے ہیں تو انہیں طرح طرح کی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بجلی اور گیس کا حصول، کاروبار کی قانونی حیثیت کا حصول اور مختلف اقسام کی ٹیکسوں کی ادائیگی ایک جان جوکھم کا کام ہے۔ کاروبار میں آسانی کی درجہ بندی کے لحاظ سے پاکستان کا 190 ممالک میں 147 واں نمبر ہے۔ ہر کاروبار کرنے والے کو پاکستان میں 47 اداروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کسی نہ کسی طرح کا ٹیکس وصول کرنے پہنچ جاتے ہیں اور پھر یہ ادارے طرح طرح سے دباؤ ڈال کر رشوت اور دوسرے کرپشن کے راستے دکھاتے ہیں اس وجہ سے پاکستان میں صاف ستھرا کاروبار انتہائی دشوار ہے۔
ملک میں بے روزگاری کے مسئلے کا حل اسی طرح ممکن ہے کہ پڑھے لکھے اور باصلاحیت نوجوانوں کو ملازمت کے بجائے چھوٹے کاروبار کی طرف راغب کیا جائے۔ دنیا کی بے شمار ملٹی نیشنل کمپنیاں کسی چھوٹے نجی کاروبار سے شروع ہوئی تھیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کاروبار کرنے میں جو دشواریاں ہیں ان میں کمی کی جائے۔ مائیکرو فنانسنگ کے شعبہ کو مزید متحرک کیا جائے، خواتین کو کاروبار میں آنے کی حوصلہ افزائی کی جائے، ٹیکس کے نظام کو بہتر اور آسان بنایا جائے تو پاکستانی قوم جو اپنے اندر بے پناہ صلاحیت اور ٹیلنٹ رکھتی ہے یہ پاکستان کا نقشہ بدل سکتی ہے۔