اور کپتان نے انتخابی مہم شروع کردی

451

ابھی انتخابات کا بگل نہیں بجا۔ نئی مردم شماری کے تحت ازسرنو انتخابی حلقہ بندیاں بھی تشکیل نہیں پائیں، انتخابات کے انعقاد میں ابھی کئی رکاوٹیں اور مرحلے حائل ہیں، لیکن کپتان نے اپنی انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ وہ سب سے پہلے پنجاب کے مختلف شہروں میں جلسے کرتا رہا اور پنجاب کے عوام کو بتاتا رہا کہ پنجاب اور وفاق کے حکمران جن کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت سے ہے انہیں لوٹ کر کھا گئے ہیں۔ وہ پینے کے لیے صاف پانی اور دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں جب کہ حکمرانوں نے بیرون ملک دولت کے انبار لگا رکھے ہیں اور اسے پاکستان واپس لانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ کپتان نے پنجاب کے عوام کو یاد دلایا کہ ان کے ووٹ کی پرچی ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے بس وہ اس سے یہ وعدہ کریں کہ وہ کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دیں گے جس نے ملک کو لوٹا ہو اور جس کے پاس ناجائز دولت کا ڈھیر لگا ہو۔ کپتان نے پنجاب کے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ برسراقتدار آتے ہی ان کی تقدیر بدل دے گا۔ ان کی غربت خوشحالی کا روپ دھار لے گی اور وہ دنیا ہی میں جنت کے مزے لوٹیں گے۔ پنجاب کو ’’تسخیر‘‘ کرنے کے بعد کپتان نے سندھ کا رُخ کیا اور اہل سندھ کو بتایا کہ وہ گزشتہ اکیس سال سے اندرون سندھ آجارہا ہے اور اسے یہ دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا ہے کہ سندھ میں رہنے والے بہت مظلومیت کی زندگی گزار رہے ہیں، ان پر چور، ڈاکو اور لٹیرے مسلط ہیں۔ زرداری سب سے بڑا ڈاکو ہے جو سندھ کو لوٹ کر کھا گیا ہے آپ لوگ وعدہ کریں اب آپ اس ٹولے کو ووٹ نہیں دیں گے۔ سندھ کے بعد کپتان نے خیبرپختونخوا میں قدم رکھا ہے جہاں وہ پہلے ہی حکومت کررہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہاں وہ بہت کچھ بدل چکے ہیں۔ اگلے انتخابات میں یہ صوبہ پھر ان کے ہاتھ آیا تو وہ انقلاب برپا کردیں گے۔ ظاہر ہے کہ کپتان بلوچستان بھی جائے گا اور وہاں بھی اپنے انتخابی جلسوں سے خطاب کرے گا اس طرح وہ اپنی ملک گیر انتخابی مہم کا ایک راؤنڈ مکمل کرلے گا۔
کپتان کا مطالبہ ہے کہ انتخابات قبل از وقت کرادیے جائیں کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے، وہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ساری توجہ نااہل وزیراعظم کے پروٹوکول اور شریف فیملی کے تحفظ پر دے رہی ہے۔ بات تو کپتان کی ٹھیک ہے لیکن ہمارے دوست کہتے ہیں کہ کپتان کا مطالبہ کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) سمیت تمام سیاسی جماعتیں مقررہ وقت پر انتخابات چاہتی ہیں حالاں کہ مسلم لیگ (ن) اس وقت جس مشکل صورت حال سے دوچار ہے اس میں قبل ازوقت انتخابات اسے ریلیف فراہم کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے وہ اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر عوام کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے اور اگلی بار پھر اس کی حکومت ہو، البتہ اگلے سال مقررہ وقت پر انتخابات کرانے میں کئی ماہ پڑے ہیں اس عرصے میں نواز شریف اینڈ فیملی کے خلاف ریفرنسز کے فیصلے بھی آجائیں گے جو ظاہر ہے کہ ان کے حق میں خوشگوار نہیں ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ سیاست میں ان کا کردار معدوم ہو کر رہ جائے۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) قبل از وقت انتخابات کراکے انتخابی کارڈ بڑی مہارت سے کھیل سکتی ہے لیکن پیچ یہ آن پڑا ہے کہ قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ تحریک انصاف کا ہے اور مسلم لیگ (ن) اس مطالبے کو تسلیم کرکے اپنی سیاسی حریف کے آگے سرنڈر نہیں کرسکتی اور اب تو چیف الیکشن کمشنر نے بھی کہہ دیا ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔ لیجیے صاحب اگر انتخابات شیڈول کے مطابق ہی ہونے ہیں تو کپتان کا کیا بنے گا جس نے ابھی سے انتخابی مہم شروع کرکے خود کو تھکا لیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بہت پہلے انتخابی مہم شروع کرنے سے کپتان اپنی ساری توانائی ضائع کر بیٹھے گا اور اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہے گا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کپتان کے پاس ایک ہی بیانیہ موجود ہے اور وہ ہے اپنے مخالف سیاستدانوں خصوصاً نواز شریف اور زرداری کو کرپٹ ثابت کرنا۔ وہ اپنے جلسوں میں یہ دعویٰ کررہا ہے کہ اس نے ایک کو تو آؤٹ کردیا ہے اب دوسرے کی باری ہے۔ اس کے علاوہ کپتان کے پاس کوئی ایسا پروگرام یا ایجنڈا نہیں ہے جس سے عوام کی مایوسی دور ہو اور ان میں ایک روشن مستقبل کی اُمید جاگ اُٹھے۔
یہ درست ہے کہ انتخابات جب بھی ہوئے مقابلہ تین بڑی پارٹیوں کے درمیان ہوگا۔ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی۔ یہ تینوں پارٹیاں کسی سیاسی اتحاد میں شامل نہیں ہوں گی بلکہ ہر پارٹی اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے حریفوں کا مقابلہ کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) اس زعم میں ہے کہ اس کے لیڈر کے خلاف عدالتی فیصلوں سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور آئندہ انتخابات میں وہ پھر اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے اُبھرے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی شاخ پر بیٹھے ہوئے پرندے اُڑنے کے لیے پَر تول رہے ہیں، جونہی انتخابات کے لیے وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہوئیں یہ بھرا مار کر اُڑ جائیں گے کیوں کہ یہ پرندے ہوا کے رُخ کا زیادہ بہتر اندازہ کرسکتے ہیں۔ ان کی چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ اگلی حکومت بہر کیف مسلم لیگ (ن) کی نہیں ہوگی، یہ کسی بھی دوسری جماعت کی ہوسکتی ہے۔ نئے سیاسی منظرنامے میں مذہبی جماعتوں نے بھی انگڑائی لی ہے اور انہوں نے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو ازسرنو فعال بنانے کا فیصلہ کیا ہے اس میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام سمیت وہ تمام جماعتیں شامل ہوں گی جو پہلے بھی ایم ایم اے کا حصہ رہی ہیں۔ 2002ء کے انتخابات میں ایم ایم اے نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں اس کی حکومت تھی اور قومی اسمبلی میں بھی موثر پوزیشن حاصل تھی اب کی دفعہ بھی وہ خیبرپختونخوا میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے اس لیے کہ وہاں تحریک انصاف کی کارکردگی قابل اطمینان نہیں ہے اور عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
بہر کیف ابھی سب کچھ ہوا میں ہے، انتخابات قبل ازوقت ہوں گے یا مقررہ وقت پر یا کوئی اور سیٹ اپ آئے گا لیکن داد دیجیے کپتان کی پھرتیوں کو کہ وہ نتائج سے بے نیاز انتخابی مہم پر نکلا ہوا ہے اور ہوا میں تیر چلا رہا ہے۔