ارکان پارلیمان غیر حاضری کا معمول

413

قومی اسمبلی اورایوان بالا سے ارکان کی غیر حاضری معمول بن چکی ہے۔ اپنی ذمے داریاں ادا نہ کرنے کے باوجود ارکان پارلیمان پیسے پورے وصول کرتے ہیں۔ بیشتر ارکان قانون سازی کے عمل میں حصہ نہیں لیتے اور اگر ایوان میں آبھی جائیں تو لاتعلق رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ ہوم ورک کرکے ہی نہیں آتے۔ ختم نبوت قانون میں ترمیم کی سازش اس کا واضح ثبوت ہے۔ قومی اسمبلی سے غیر حاضری کا ریکارڈ نا اہل قراردیے گئے میاں نواز شریف کا ہے جنہوں نے قومی اسمبلی کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ وہاں تشریف لے جاتے۔ غیر حاضر رہنے میں دوسرا نمبر عمران خان کا ہے جن کی زیادہ توجہ جلسوں پر ہے۔ ارکان پارلیمان کو عوام اس لیے منتخب کرتے ہیں کہ وہ ایوان میں ان کی نمائندگی کریں گے اور ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جن ارکان نے غیر حاضر رہنے کو معمول بنالیاہے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ اور کچھ نہیں تو ایسے ارکان کو ملنے والے مفادات ہی روک دیے جائیں۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ارکان کی عدم موجودگی سے کورم پورا نہیں ہوتا اور اجلاس بغیر کسی کارروائی کے ملتوی ہوجاتے ہیں۔ وہ ارکان جو حاضر ہوتے ہیں انہیں بھی سزا ملتی ہے۔ اس عمل سے صاف ظاہر ہے کہ ارکان پارلیمان ان عوامی اداروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس کے باوجود اصرار کرتے ہیں کہ پارلیمان ہی بالا دست ہے۔ اب گزشتہ جمعہ ہی کو یہ ہو اہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے سینیٹ میں آئینی ترمیم کا بل ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے سے پیش ہی نہ کیا جا سکا۔ آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ کے مطلوبہ69ارکان کے بجائے صرف 50حاضر تھے۔ اجلاس میں تحریک انصاف کے سینیٹر نے بھی عمران خان کی پیروی کی اور کوئی ایک رکن بھی حاضر نہ ہوا۔ فاٹا کا بھی صرف ایک سینیٹر حاضر تھا۔ متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام کے اکثر ارکان غیر حاضر رہے۔ پیپلز پارٹی کے 27 میں سے 18ارکان، ن لیگ کے 26 میں سے 17ارکان حاضر ہوئے۔ اجلاس پیر تک ملتوی ہوگیا۔ سینیٹ ہو یاقومی اسمبلی ، ان کے اجلاس مفت میں نہیں ہوجاتے ان پر عوام کے پیسے خرچ ہوتے ہیں اور جب کوئی نتیجہ نہ نکلے بلکہ اجلاس ہی ملتوی ہوجائے تو عوام کے پیسے ضائع ہوتے ہیں۔ لیکن عوام کا درد ہی کس کو ہے۔ سینیٹ کے 104میں سے صرف50کی حاضری شرمناک ہے۔ گویا اکثریت نے حاضر ہونا ہی گوارہ نہیں کیا۔ حالانکہ مطلوبہ ارکان پورے کرنے کے لیے وزیر اعظم خاقان عباسی اور دیگر وزراء پورا زور لگاتے رہے لیکن ن لیگ کے ارکان نے میاں نواز شریف کے طریقے پر عمل کرنے کو ترجیح دی۔ مذکورہ بل ایک دن پہلے قومی اسمبلی نے منظور کرلیاتھا اور سینیٹ سے اس کی توثیق ہونی تھی۔ حکومت نے یہ صورتحال دیکھ کر ایوان بالا کے فرمان امروز سے حلقہ بندیوں سے متعلق7،8 اور 9 کے نکات پیش ہی نہیں کیے۔ وزیر قانون بھی ختم نبوت کا قانون منظور کروانے کے بعد ایوان سے چلے گئے اور پلٹ کر نہیں آئے۔ اب شاید پیر کو یہ کام ہوجائے گا گو کہ اس دن سینیٹر زکا ایک وفد ملک سے باہر بھی جارہاہے۔ فی الوقت تو پیر کے دن تمام لیگی سینیٹروں کو حاضر رہنے کا حکم دیاگیاہے۔ نئی حلقہ بندیوں سے متعلق بل تو منظور ہوہی جائے گا لیکن عوامی نمائندگی کے دعویدار ارکان پارلیمان کو اپنے رویے پر غورکرناچاہیے کہ وہ ایوان میں حاضرہوئے بغیر کس کی اور کیسی نمائندگی کرتے ہیں۔ نا اہل نواز شریف کہتے ہیں کہ جمہوریت کی خاطر ہر قربانی دینے کو تیارہوں لیکن کیاایوان بالا میں حاضری کا تعلق جمہویت سے نہیں ہے؟۔