آپس میں مدد

157

رملہ کامران
بہت عرصے پہلے کی بات ہے کسی گائوں میں ایک غریب بچہ رہتا تھا۔ جس کا نام زید تھا۔ اس کی ایک بہن تھی جس کا نام فائزہ تھا۔ اس کے ماں باپ بہت بوڑھے ہو چکے تھے اس لیے اب وہ بھی کام نہیں کر پاتے تھے۔ بچارا بچہ روز صبح سے دوپہر تک اسکول جاتا اور اسکول سے آنے کے بعد کھانا کھا کر شربت بیچنے چلا جاتا۔ اس کا شربت لوگوں کو بہت پسند تھا۔ اس لیے شام تک اس کا شربت ختم ہو جایا کرتا تھا۔ جو پیسے کماتا اس سے اپنی بہن کے لیے ٹافیاں اور بسکٹ لے جاتا اور کھانے کا کچھ سامان خرید لاتا۔ جب گھر آتا تو اس کی امی کھانا تیار رکھتی کھانا کھاتا اور اپنی بہن کے ساتھ کچھ دیر کھیلتا اور پھر سو جاتا یونہی اس کی گزر بسر ہو رہی تھی۔
ایک دن جب وہ اسکول سے گھر واپس آیا تو کچھ پریشان سا لگ رہا تھا اس کی امی نے دیکھتے ہی اس سے پریشان ہونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ: ’’اسکول میں میری بہت سی چیزیں کھو گئی ہیں مثلاً پینسل، ربڑ، اسکیل وغیرہ، اب میں کیا کروں۔ اپنا ہوم ورک اور پڑھائی کیسے کروں۔ مجھے پڑھائی کا بہت شوق ہے۔ کچھ کریں امی جان‘‘ یہ کہتے ہی وہ رونا شروع ہو گیا۔ زید کی امی سے یہ سب دیکھا نہیں گیا۔ انہوں نے فوراً اپنے بیٹے کو تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’پریشان نہ ہو میں کچھ نہ کچھ تو ضرور کروں گی۔ کہیں سے بھی تمہیں تمہاری چیزیں لا کر دوں گی‘‘ اور اس کو کھانا دیا اور پھر سوچنے بیٹھ گئیں کہ اب کیا کیا جائے اچانک سے ان کے ذہن میں ایک خیال آیا اور وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئیں اور برقعہ پہن کر باہر کی طرف چل دیں۔ تھوڑی دور جا کر ایک دروازے پر دستک دی جو کہ ان کی خالہ زاد بہن کا گھر تھا۔ پھر ایک آٹھ سالہ بچی دروازے پر آئی اور پوچھا: ’’آپ کو مجھ سے کیا کام ہے‘‘، ’’نہیں، نہیں، بیٹا ایسی کوئی بات نہیں جائو جا کہ اپنی امی کو بلا لائو‘‘۔ زید کی امی نے منع کرتے ہوئے بولایا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئی اور بولی ’’آنٹی امی آپ کو اندر بلا رہی ہیں، آئیے اندر آجائیے۔‘‘ ’’شکریہ بیٹی تمہارا‘‘ زید کی امی کہتے ہوئے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئیں۔
’’اب بتائو کیا کام ہے‘‘ اس بچی کی امی بولیں جب وہ کرسی پر بیٹھ چکی تھیں، ’’بس بہن کیا بتائوں ہمارے مالی حالات بھی بہت خراب ہیں بس تم سے میں یہ چاہتی تھی کہ اگر تمہاری پاس اضافی پینسل، ربڑ، اسکیل ہے تو پلیز مجھے دے دو میرے بیٹے کو اس کی بہت ضرورت ہے‘‘ یہ کہہ کر وہ سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگیں۔ ’’بس اتنی سی بات ارے مجھ سے پہلے کہہ دیتی ابھی لائی‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے نکل گئیں۔ تھوڑی دیر بعد ان کی واپسی ہوئی تو ان کے ہاتھ
میں ایک ڈبہ پیسنل کا، ایک ڈبہ ربڑ کا اور ایک ڈبہ اسکیل کا تھا۔ پھر وہ یہ سب چیزیں زید کی امی کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں ’’یہ لیجا کر آرام سے استعمال کرو۔ تم یہ سمجھ لو کہ میں نے تمہارے بچے کو یہ چیزیں انعام میں دیں ہیں‘‘ شکریہ بہن میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھلائوں گی۔ تمہارا بہت بہت شکریہ‘‘ اس کے بعد وہ اللہ حافظ کرکے گھر سے نکل آئیں اور وہ خوشی محسوس کر رہی تھیں اور سوچ رہیں تھیں کہ اس دنیا میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے ’’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اس لیے ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے۔