گھر بچے کی بنیادی تربیت گاہ ہے۔ اس مکتب میں بچوں کے طبعی رجحانات کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔ جن بچوں کی فطرت میں والدین کی غفلت اور بے تدبیری کے سبب اوائل عمری میں غلط قسم کے رجحانات راہ پا جاتے ہیں اہلِِ مدرسہ کی اعلیٰ سے اعلیٰ تربیت بھی ان کی ذہنی افتاد کو نہیں بدل سکتی۔ سامنے کی بات ہے کہ ہمارے بچے اپنے دین کی اعلیٰ قدروں اور تہذیبی روایات سے بیزار ہیں۔ مذہب سے بے گانگی، قواعد کی پابندی سے عَلانیہ بغاوت، امتحانوں سے گریز، بے ہنگم ہلڑ بازی، علمی و ادبی محفلوں میں شور شرابہ اور راہ چلتوں پر آوازے کسنا ان کے امتیازی نشان بن چکے ہیں۔ انہیں تفریحی مشاغل سے فراغت اور فیشن پرستی سے فرصت نہیں۔ نمودو نمائش کے یہ دھندے ان کے لیے جان کا آزار بن گئے ہیں۔ لڑکیوں کو لڑکوں کے شانہ بشانہ ترقی کرنے کی خواہش بے قرار رکھتی ہے، وہ ہر کام میں مردوں کی نقالی کرتی ہیں۔ مختلف انداز کے بال کٹواتی ہیں، تنگ کپڑے پہنتی ہیں، ان کی طرح چلتی ہیں اور آہستہ آہستہ اپنا نسوانی جوہر کھو بیٹھتی ہیں۔ اسی طرح لڑکے لڑکیوں میں مقبول ہونے کے لیے ان کے نظریات کو پسند کرنے لگتے ہیں اور ان کے اندازِ گفتگو، اندازِ فکر و نظر اور رفتار و گفتار میں مردانہ وجاہت باقی نہیں رہتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں پریشان نظری کا شکار ہوکر اپنے مقام سے گر جاتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے شاید اسی طبقے کے لیے کہا ہے:
مذکر کے لیے ’’ہی‘‘ ہے مؤنث کے لیے ’’شی‘‘ ہے
مگر حضرت مخنث ہیں نہ ’’ہیئوں‘‘ میں نہ ’’شیئوں‘‘ میں
آج کے دور میں ہر ایک خود کو سنوارنے میں مصروف ہے۔ کیا آپ بھی؟ ارے دیکھو تو یہ لپ اسٹک میرے نیل پالش کے ساتھ میچ ہے یا نہیں۔ میرا ہیئر اسٹائل تو بالکل شاہ رخ جیسا ہے۔ موجودہ دور میں پاکستانی طلبہ و طالبات فیشن کے گرویدہ اور تعلیمی سرگرمیوں سے دور ہیں۔ اکثر طالبات کے بیگز میں سے برش، لپ اسٹک، لائنر تو ملے گا مگر پنسل پوائنٹ مشکل ہے۔ اور ہمارے بھائی حضرات بھی بننے سنورنے میں کسی سے کم نہیں۔ فیشن ایک طرف نمائش بھی ہے اور طلبہ چاہتے ہیں کہ وہ اس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جائیں۔ اسی لیے وہ مغربی لباس پہننا پسند کرتے ہیں اور قومی لباس پہننے سے کتراتے ہیں۔ افسوس ہمارے ملک کے نوجوان بہت سارا وقت اور پیسہ اسی کام میں ضائع کردیتے ہیں۔
فیشن کا خاصہ ہے کہ یہ انسانی رویوں کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ اس کے رنگ ڈھنگ بدلنے کی قریب ترین مثالیں انسانی پہناوے میں ملتی ہیں، یعنی 1970ء کے آس پاس ٹیڈی پینٹ کا فیشن چلا، وہ اس قدر ٹائٹ ہوتی تھیں کہ ٹانگوں کو اس میں ڈالنے کے لیے اچھی خاصی مشقت کرنا پڑتی تھی۔ اُن دنوں خواتین کی شلواریں بھی اس قدر تنگ ہوتی تھیں کہ ان کے پائنچوں پر زبیں لگائی جاتی تھیں۔ یہ فیشن کچھ عرصے بعد 180 ڈگری کا ٹرن لے گیا۔ ٹیڈی پینٹ اور تنگ شلواروں کی جگہ بیل باٹم پاجامے آگئے۔ لیڈیز شرٹ کی آستینیں اور دوپٹے غائب ہوگئے۔ مشرقی یا قومی لباس کے دلدادہ لوگ بھی فیشن کی تبدیلی سے مستثنیٰ نہیں رہے۔ قمیص یا کرتے بھی لمبائی میں پہننے والوں کی قدم بوسی کرنے لگ جاتے ہیں، یا پھر کبھی سکڑ کر ٹانگوں اور کمر پر چڑھ جاتے ہیں۔ بالوں کی تراش خراش بھی ملبوسات کی طرح ہمیشہ فیشن کی زد میں رہتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب نوجوان نسل دلیپ کمار اور وحید مراد کے ہیئر اسٹائل کی نقل کیا کرتی تھی۔ ان کے بال بڑے طریقے اور سلیقے کے بنے ہوتے تھے۔ لڑکیاں نورجہاں اور لیڈی ڈائنا کی دیوانی تھیں، ڈائنا کٹ ہیئر اسٹائل بنواتی تھیں، جُوڑے بناتی تھیں۔ فیشن ہماری بول چال پر بھی اثرانداز ہوا ہے۔ آپ، جناب، محترم اور حضورِ والا جیسے الفاظِ تخاطب کبھی گفتگو کا حصہ ہوا کرتے تھے، پھر آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی، اور اب تو لڑکیاں، لڑکوں کو یار کہہ کر بلانے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتیں۔ حالانکہ لڑکیوں کی زبان سے یار کا لفظ بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ فیشن ہمارے طرزِ طعام میں بھی تبدیلیوں کا باعث بنا ہے۔ پہلے سرعام چلتے پھرتے کچھ کھانا پینا برا سمجھا جاتا تھا، مگر اب گلیوں بازاروں میں مرد و زن بھٹے، آئس کریم ہاتھوں میں تھامے بلا جھجک کھاتے نظر آتے ہیں۔ فاسٹ فوڈ کے متعارف ہونے سے پہلے روٹی، نان، پراٹھے، پوریاں ہی ہماری خوراک کا حصہ تھے جنہیں ہاتھ سے توڑ کر نوالہ بنا کر منہ میں ڈالا جاتا تھا، اور اب برگر، پیزا، شوارما اور سینڈوچ کا تو نوالہ ہی نہیں بنایا جاسکتا، انہیں براہِ راست دانتوں سے کاٹنے کے سوا چارۂ کار ہی نہیں۔ یہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہوگا جو فیشن کی دست برد سے محفوظ رہا ہو۔