نئے شاعر … سیماب ظفر

228

اسامہ امیر
خوب صورت لب و لہجے کی شاعرہ سیماب ظفر، آپ سات جنوری کو پنجاب کے خوبصورت شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئیں، سول سرونٹ ہیں، ایف بی آر میں اسسٹنٹ کمشنر ہیں، ایل ایل بی (آنرر) کی سند حاصل کر چکیں ہیں، آپ کو لکھنے پڑھنے کا شوق زمانہ ٔ طالب علمی سے رہا ہے، یونیورسٹی سے بہترین ڈارمہ رائٹر اور بہترین اداکارہ کا ایورڈ اپنے نام کر چکی ہیں، آپ نے ابتداء￿ میں نظمیں کہیں مگر اب مکمل رجحان غزل کی طرف ہے، میر، فیض، ن م راشد، ثروت حسین آپ کے پسندیدہ شعرا میں شامل ہیں، یوں تو نوجوان نسل نے غزل کا روگ پال لیا ہے مگر سیماب ظفر کی غزل ان کے معاصرین میں بالکل جدا نظر آتی ہے، ان کا رنگ ان کا ڈھنگ ان کا اپنا ہے ،آپ مصرع بنانے کے ہنر سے بہ خوبی آگاہ ہیں، ان کے مختصر کلام سے یہ بات واضح ہو چلی ہے کہ سیماب ظفر معیار سے کم پر ترجیح نہیں دیتیں یہی آپ کا خاصا ہے جو کہ دیگر شعرا سے آپ کو ممتاز رکھتا ہے۔

تِرے دریچے کے خواب دیکھے تھے رقص کرتے ہْوئے دِنوں میں
یہ دِن تو دیکھو جو آج نِکلا ہے, دست و پا سب کَٹے ہْوئے ہیں
٭
خْمار کیسا تھا ہمرَہی کا, شْمار گھڑیوں کا بْھول بیٹھے
تِرے نگر کے فقیر اب تک اْس ایک شب میں رْکے ہْوئے ہیں
٭
کون دروازہ کْھلا رکھتا برائے انتظار ؟
رات گہری ہو چلی, رِہرْو ! عَبث ہے کْل پْکار
٭
آنکھ جل جاتی ہے, لیکن خواب جْھلساتی نہیں
سْرمئی ڈھیری کی خْنکی سے جنم لے گی بہار
٭
رَنج میں لِپٹا رہا مہتاب کا غمگیں بدن
رات ٹیرس پر کوئی سجدے میں رویا زار زار
٭
شاہزادی روزنِ زنداں سے رِہ تکتی رہی
شہر کی رخشندگی میں کھو گیا اِک شِہسوار
٭
درونِ دل ہی رکھو, واں حفاظت میں رہے گا
وہ اک رازِ نگفتہ, (جو چھپانا بھی نہیں ہے) … !!
٭
جو ربطِ سبز ہے میرا محبت کے شجر سے
کئی صدیوں پہ پھیلا ہے, پْرانا بھی نہیں ہے
٭
زخمی سورج, زہر میں بھیگی لْو , پیاسے پنچھی
ٹْوٹی بکھری ہجر گلی میں کچھ شاخیں بیجان!
٭
آیت آیت نْور کا پیکر، حرف حرف مہکار
دو سیماب صِفَت ہونٹوں پر تھی سْورہ رحمٰن
٭
رگ رگ میں رواں بحرِ فغاں چڑھ گیا، لیکن
ویرانی جاں کم تو ہوئی ذکرِ بُتاں سے
٭
روغن نہ سفیدی نہ مرمت سے ملے گا
اِک پاسِ مراتب کہ گیا سب کے مکاں سے
٭
آزار و مصیبت سے علاقہ ہے پرانا
رشتہ ہے قدیمی مرا، فریاد و فغاں سے
٭
اک گوشۂ دل اُس کو دکھانے کا نہیں ہے
محرم نہیں کرنا اْسے اِک سرِ نہاں سے
٭
سرسبز رہے زخمِ جُنوں، جس کی بدولت
اک ربط تو قائم ہے عدوئے دل و جاں سے
٭
چشمِ گریاں! زرا تھم بھی جا! اشک میں دل بھی بہہ جائیگا
صبر! صِحرائے وحشت کے ماتم گرو! آس مرتی نہیں !
٭
درد اْٹھنے سے دل کے شرارے کہاں بجھ سکے ہیں کبھی
لاکھ روشن نگاہوں میں خْوں لا بَھرو ، آس مرتی نہیں !
٭
والی شہر نغموں کا قاتل، بجا! پر ہمیں غم ہے کیا
فکر زندہ ہو جب تک مرے شاعرو! آس مرتی نہیں !!