وقت آیا ہے بے وفا یارو نہ کسی پر بھی اعتبار کرو کون پوچھے قاعدہ قانون دل جو چاہے وہ اختیار کرو یوںوہ دامِ فریب دیتے ہیں جان کیونکر نہ تم نثار کرو ہے مشکل مگر ہے ممکن بھی کر سکو تو سب سے پیار کرو کس کو وعدہ وفا ہوا ہے کبھی وعدہ کیوں تم نہ بار بار کرو حسنِ ظاہر پہ جو مچل اٹھے ایسے دل کا نہ اعتبار کرو وقت بھر دے گا سارے زخموں کو وقت آنے کا انتظار کرو