حافظ عظمان آصف
اگر روز روشن کی طرف نظر دوڑائیں تو صاف نظر آئے گاکہ ایسا آدمی جو بڑاافسر ہے لمبی لمبی گاڑیوں میں گھومتا ہے ،سنگ مرمر پر چلتا ہے ، نرم نازک بستر پر سوتاہے ۔زیادہ تریہ پسند ہی نہیں کرتے کہ کوئی مالی لحاظ سے کمزور آدمی ا ن کی چوکھٹ پر آئے ۔ یاکوئی دکھوں اوربیماریوںمیں جکڑا،سوالی بن کر آئے ۔انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود انسان نہیں سمجھا جاتا۔
حارث بھی مجرم تھا؟اس جرم میں ملوث تھا کہ اس نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جہاںدکھوں پریشانیوں اور بیماریوں کا بسیرا تھا۔حارث زمانے کی ستم ظریفی سہتا سہتا اب 10 سال کا ہو چکا تھا۔کھیلنے اور پڑھنے کی عمر میں اس کے سر سے باپ کاسایہ بھی اٹھ گیاتواسکول سے اٹھا لیا گیااسے سکول چھوڑنے کا دکھ ہوا۔ کچھ دنوں بعد فاقوں کی وجہ سے اس کی ماں نے اسے شہر مزدوری کرنے کیلئے بھیج دیا اسے کیا معلوم کہ شہر جا کر اس پر کیا بیتے گی اسے کیا معلوم کہ جو ماں جو ممتا مجھے چوم کر میری گالوں پر بوسہ دے کر مجھے روانہ کر رہی ہے اسے واپس صرف لاش ہی ملے گی۔حارث گھر سے روانہ ہوا اور راستے میں ایک امیر آدمی کو مخاطب کرنے لگا اور یہ سوچنے لگا کہ اس آدمی کو اپنی روداد سناں اور یہی امیر آدمی میرے کام آجائے لیکن یہ کیا؟ جونہی حارث نے اس کے ریشمی کپڑوں کو پکڑتے ہوئے اسے مخاطب کیا! ایک زوردار طمانچہ حارث کے منہ پر لگا اور وہ لڑھکتا ہوا زمین پر جاگرا اسے چودھری کے ہاتھوں میں پکڑا چابیوں کا گچھا زخمی کر گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے آسمان بھی اس لہو رنگ منظر کو دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا۔اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟ کس جرم میں اس کا خون کیا گیا اور اس کے اس آسان سوال کا جواب کائنات میں کسی کے پاس نہیں۔