ہر معاملہ سیاست کی نذر

426

جسارت ہی کی خبر ہے کہ پاکستان ریلویز کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ شروع نہیں کرپارہی ہے جس کا سبب وفاق اور صوبے کی چپقلش ہے۔ اس تنازع میں کراچی بلدیاتی حکومت بھی کود پڑی ہے لیکن اس کی وجہ سے 25 دسمبر کو منصوبے کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھنے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ اس 43 کلو میٹر طویل ٹریک پر 60 فی صد تجاوزات ہیں۔ حکومت سندھ اراضی واگزار کرانے میں سنجیدہ نہیں۔ ریلوے مزدور یونین کا دعویٰ ہے کہ صوبائی حخومت اور شہری حکومت رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ یہ کہہ رہے ہیں کہ ریلوے افسران تاخیری حربے اختیار کررہے ہیں، وفاق ذمے دار ہے۔ اس صورتحال پر سب سے اچھا بیان جناب وزیر ریلویز سعد رفیق کا آیا۔ فرماتے ہیں کہ سرکلر ریلوے منصوبے پر تعاون کریں گے لیکن تجاوزات ہٹانا میرا کام نہیں ہے۔ وہ یہ اعتراف بھی کررہے ہیں کہ تاخیر وہیں سے ہورہی ہے ان کا کہناہے کہ عجلت میں قوم کا نقصان نہیں کریں گے۔ یہ منصوبہ تو 30 برس پہلے مکمل ہوجانا چاہیے تھا۔ اس پر تو ان ہی سے سوال کیا جانا چاہیے ان کی پارٹی گزشتہ 30 برسوں میں تین مرتبہ حکومت میں آئی ہے۔ آج کل وہ وزیر ریلوے ہیں تو خواجہ صاحب 30 برس قبل مکمل ہونے والے منصوبے میں تاخیر کیا صرف سندھ حکومت کی طرف سے ہورہی ہے۔30برس بعد بھی عجلت۔؟؟؟ یہ جو بات وزیر ریلویز نے کہی ہے کہ رکاوٹیں یا تجاوزات ہٹانا میرا کام نہیں تو یہ بھی سیاست کی نذر کرنے والا بیان ہے۔ ظاہری بات ہے پوری وزارت میں کوئی کام ان کا نہیں ہے لیکن ساری ذمے داری ان ہی کی ہے۔ کیا ٹرینیں چلانا ان کا کام ہے لیکن وہ وزیر ریلویز ہیں۔ اسٹیشنوں کا نظام، ڈرائیوروں کا نظام، سگنلز، پھاٹک، ٹریک کی حفاظت، مال گاڑیاں، بوگیوں کی مرمت کیا یہ سارے کام وہ کرتے ہیں۔ ان کا کام تو صرف معاملات کی نگرانی ہے۔ چلیں وزیراعلیٰ کے بیان کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں خود وزیر ریلویز کا بیان سامنے ہے وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ 30 سال قبل جو منصوبہ مکمل نہیں ہوا اس کو مکمل کروانے میں وفاق کا کچھ تو حصہ ہونا چاہیے۔ خصوصاً یہ ریلویز کی وزارت ہے اور آپ اس کے وزیر، خواجہ سعد رفیق صاحب کو معلوم ہے کہ ٹرینوں کی تعداد میں کمی سے کتنے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ ٹرینوں کی آمد و رفت میں تاخیر سے کتنے لوگوں کا نقصان ہوتا ہے اور کتنے لوگ پریشانی کا شکار ہوتے ہیں اور کراچی کے سوا دو کروڑ لوگوں کے پاس اپنی گاڑیاں و موٹر سائیکلیں نہیں ہیں۔ سڑکوں کا نظام ناکافی ہے اور جو ہیں ان پر گڑھے، تجاوزات، کچرا، پانی وغیرہ ہے یا کہیں پولیس کا پہرہ ہے، کہیں سیکورٹی اداروں کا ڈیرہ۔ اس کے بعد سڑکیں کہاں بچتی ہیں۔؟ یہاں ہر چند ہفتے بعد موٹر سائیکل پر ڈبل سواری بند ہوجاتی ہے۔ سوا دو کروڑ کے لگ بھگ آبادی ویگنوں کی چھتوں پر، بسوں کے پائدان پر لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہے۔ سرکلر ریلوے کیوں نہیں چلتی، ریلوے ٹریک پر تجاوزات کس کے کیں، ان کو مستحکم کون کرتا ہے۔ اب رکاوٹیں کیا ہیں یہ سارے کام وزیر ریلوے کو بھی کرنے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کو اور یہ بلدیہ کراچی کہاں سے آگئی۔ اگر حکومت سندھ اسے کوئی اختیار نہیں دیتی، سارے محکمے اپنے پاس رکھتی ہے، سارے فنڈز اپنے پاس رکھتی ہے تو اسے وفاق اور صوبے کا مشترکہ منصوبہ قرار دے کر جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ ویسے بھی وسیم اختر صاحب کو اس منصوبے کا حصہ بنایا گیا تو وہ صرف یہی شکایت کریں گے کہ اختیارات نہیں ہیں۔ لہٰذا سعد رفیق صاحب اس قومی اہمیت کے منصوبے کو سیاست کی نذر ہونے سے بچائیں تمام اسٹیک ہولڈرز کو جمع کریں اور ریل کا پہیہ چلادیں۔