نااہل وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بالکل درست کہا کہ احتساب کہیں اور سے کنٹرول ہورہا ہے، سزا دی نہیں جارہی دلوائی جارہی ہے۔ میاں صاحب کی یہ شکایت بھی بجا ہے کہ ہمارے اور دوسروں کے مقدموں میں ضابطے مختلف ہیں۔ پاناما فیصلے میں مخالفین جیسے ریمارکس تھے۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ عدالتوں کے دوہرے معیار کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ میاں صاحب اپنے خلاف پہلے فیصلے کے وقت سے یہی کہہ رہے ہیں کہ معاملات کہیں اور سے چلائے جارہے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے عدلیہ، نیب، ایف آئی اے وغیرہ کا نام لیا اور اس نامعلوم قوت کا نام نہیں لیا جس کو سب جانتے ہیں۔ میاں صاحب نے اگرچہ نام نہیں لیا لیکن ایسا ہی لگ رہا ہے کہ احتساب کہیں اور سے کنٹرول ہورہا ہے۔ سزا دی نہیں دلوائی جارہی ہے، بس انہیں یہ بات سمجھنے میں ذرا تاخیر ہوگئی ہے۔ جب وہ وزیراعظم ہوا کرتے تھے ملک پر حکمرانی کررہے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ وہ حکومت کر نہیں رہے ان سے حکومت کروائی جارہی ہے۔ اگر کارگل کی بات کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ میاں صاحب سے کارگل سے فوج کو اتروانے کا فیصلہ کیا نہیں تھا ان سے یہ فیصلہ کروایا گیا تھا۔ پوری پاکستانی قوم بھارت کے خلاف سر تا پا احتجاج تھی، کشمیر میں مسلمانوں پر پیلٹ گنوں سے حملے ہورہے تھے، پورے ہندوستان میں گائے کا گوشت کھانے کے شبہ پر مسلمانوں کو قتل کیا جارہا تھا اور کوئی میاں نواز شریف سے نریندر مودی کا ذاتی استقبال کروارہا تھا اسے ائرپورٹ سے اپنے گھر رائے ونڈ تک کسی اور کے اشارے پر لے گئے، یقیناًحکومت تو میاں نواز شریف کی تھی لیکن ان سے فیصلے کوئی اور کروارہا تھا۔ یہ بات کئی لوگ کہہ رہے تھے جب اسحق ڈار دبئی، لندن اور واشنگٹن سے وطن واپس آکر کسی اور کا تیار کردہ بجٹ پیش کرتے تھے تو لوگ یہی کہتے تھے کہ بجٹ کوئی اور بنا کر دے رہا ہے یعنی بجٹ بنایا نہیں جارہا بنوایا جارہا ہے۔ صرف اعلان ہمارے حکمران کرتے ہیں، آئی ایم ایف سے ہدایات ملتی ہیں کہ پنشن بند کردو، اہم ادارے فروخت کردو، فلاں فلاں ٹیکس لگادو اور ہماری حکومت لگادیتی ہے۔ یہ کام دوسری حکومتیں بھی کرتی تھیں اور کررہی ہیں لیکن فی الوقت تو میاں نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ زیر بحث ہے بلکہ خود زیر بحث آئی ہے۔
مسلم لیگ لیگ کے رہنماؤں کا بیان ہے کہ انصاف ہوتا نظر نہیں آئے تو سوال اُٹھیں گے۔ کمال ہے….. مسلم لیگیوں کو انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا….. نظر کیسے آئے گا؟ میاں نواز شریف کو نااہلی اور سابق وزیراعظم ہونے کے باوجود شاہانہ پروٹوکول مل رہا ہے۔ عدالت میں پیشی کے لیے 23 گاڑیوں کا قافلہ ان کے ساتھ تھا، نواز شریف کی جاتی امرا میں رہائش گاہ کا خرچہ پورا کرنے کے لیے اسے وزیراعلیٰ کے کیمپ آفس کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ یہ سب کوئی تو کروارہا ہے۔ موجودہ عبوری حکومت بھی کسی سے کم نہیں ہے، حکومت کوئی کررہا ہے کام کوئی اور کروارہا ہے، معلوم نہیں نواز شریف کی کچن کیبنٹ کے اہم ترین فرد اسحق ڈار سے کوئی اور کام کروارہا تھا لیکن عبوری وزیراعظم کے کچن کے سربراہ یا خانساماں لمبے لمبے ہاتھ مار رہے تھے۔ کس کے اشارے پر کیا جارہا ہے، اسی وزیراعظم سیکرٹریٹ نے سینئر اور اعلیٰ افسروں کو چھوڑ کر من پسند افراد کو گریڈ 22 میں سیکرٹری مقرر کردیا۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار پر بے تحاشا الزامات ہیں‘ مقدمات ہیں ان کو ملزم نامزد کردیا گیا ہے ان کے خلاف جائداد ضبطی کے احکامات ہیں گرفتاری کے وارنٹ ہیں وہ استعفا دے رہے ہیں اور وزیراعظم اسے مسترد کررہے ہیں۔ یہ کام ان سے کون کروارہا ہے۔ نااہل وزیراعظم صاحب اس مسئلے پر بھی روشنی ڈالیں کہ یہ سارے کام حکومت سے کون کروارہا ہے۔ گزشتہ چند روز کے اخبارات دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ملک میں حکومت کا کام صرف کرپشن کرنا رہ گیا ہے، ہر سرکاری ادارے میں بدعنوانی دیمک کی طرح ادارے اور قومی خزانے کو کھا رہی ہے۔
جب تک میاں نواز شریف صاحب اقتدار کے ایوان میں رہے انہیں کہیں اور سے حکومت چلانے کی سازش کا علم نہیں ہوا انہیں یوسف رضا گیلانی کو سزا دلوانے کا علم نہیں تھا جب بھی کہہ رہے تھے کہ عدالت عظمیٰ کا احترام کریں آپ کو سزا ہوئی ہے اسے مان لیں۔ لیکن اس حکومتی دور میں انہوں نے کبھی عدالتوں کے دوہرے معیار کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ میاں صاحب یہ کام اس وقت کرسکتے تھے جب وہ اقتدار میں تھے اب تو سزا یافتہ اور نااہل ہیں اب وہ یہ کام کیسے کریں گے۔ اب تو پوری مسلم لیگ بھی ان کے پیچھے نہیں چل رہی ہے دوہرے معیارات اس وقت ختم ہوں گے جب وزیراعظم اور ان کا خاندان ایک ہی قانونی معیار پر عوام کے ساتھ جانچا جائے۔ اگر وی وی آئی پی صرف حکمران ہوں اور عوام کے لیے ساری پابندیاں تو پھر دوہرا معیار کسی شعبے میں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ میاں صاحب پارٹی لیڈر شپ، وزرا کے انتخاب، اہم محکموں اور مناصب پر تقرر کے معاملے میں اہلیت کے بجائے وفاداری اور چمچہ گیری کو پیش نظر رکھتے ہیں تو پھر معیار کیسے درست ہوگا۔ بہت سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آگیا جب میاں صاحب کو کالے پانی کی سزا ہوئی تھی۔ اس سزا میں بھی یہ خیال رکھا گیا تھا کہ کالا پانی سونے کا ہو۔ چناں چہ انہیں سعودی عرب جانے دیا گیا تھا۔ اس وقت وہ اپنے قریبی لوگوں سے اس طرح شکوہ کررہے تھے کہ اگر یہ یہ اور وہ وہ غلطیاں نہ کرتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اس پر ہم نے صرف یاد دہانی کے لیے لکھا تھا کہ مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو جب کالے پانی کی (سچ مچ) سزا ہوئی تھی تو وہ جہاز کے عرشے پر ایک روز صبح سویرے کھڑے اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ بہت دن بعد یہ دن دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ یعنی سورج نکلنے کا منظر۔ اس پر ان کے درباری نے یہ جواب دیا کہ جب آپ بادشاہ تھے اس وقت اگر آپ روز یہ دن دیکھ رہے ہوتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ تو میاں جی اقتدار کے دنوں میں اداروں کی اصلاح کی جاتی ہے سزا کے دوران اپنی اصلاح کی جاتی ہے۔