’’بھائی! علاء الدین کا انتقا ل ہوگیا‘‘ فون کے دوسری طرف ہماری چھوٹی بہن تھی۔ وہ ہمیں علاء الدین کی متوقع موت کی اطلاع دے رہی تھی۔ علاء الدین ہمارے بہنوئی ڈاکٹر ضیا کی چھوٹی بہن نبیلہ کا شوہر تھا۔ کافی عرصے سے اس کی بیماری کا سننے میں آرہا تھا۔ جس وقت بہن کا فون آیا ہم کسی کام میں الجھے ہوئے تھے۔ اس کی بیماری پر تبصرہ اور موت پر افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے ہم نے بڑے سپاٹ لہجے میں پوچھا ’’جنازہ کب اٹھے گا؟‘‘۔ موت کے بعد سب سے زیادہ اہمیت جنازہ اٹھنے کی ہوتی ہے۔ گھر سے جنازہ اٹھتا ہے تو پورا گھر ویران ہوجاتا ہے۔ اہل خانہ غم والم میں مبتلا ہوجاتے ہیں لیکن علاء الدین کے مرنے سے ہمیں یقین ہے نہ گھر کی ویرانی میں اضافہ ہوا ہوگا نہ اس کے بیوی بچے وقف الم ہوئے ہوں گے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کی زندگی میں بھی ان کے اہل خانہ کی آنکھیں بھیگی ہی رہتی ہیں۔ زندگی میں وہ اپنی بیوی کو کوئی خواب دے سکا نہ خوشی۔ اس کی موت اس کی بیوی کے لیے ایسے ہی تھی جیسے کوئی جاندار زیر زمین چلا جائے کھاد بننے کے لیے۔ جس وقت نبیلہ کا اس سے نکاح ہورہا تھا اس کی آنکھوں پر سیاہ چشمہ چڑھا ہوا تھا۔ وہ آنکھوں کے ایسے مرض میں مبتلا تھا جس کا نتیجہ اندھا پن ہوتا ہے۔
اس دنیا کے جن طبقوں پر مسلسل اندھیرا چھایا رہتا ہے، پھپھوند زدہ روز وشب جن کا مقدر ہوتے ہیں علاء الدین اسی طبقے کا باسی تھا۔ نہ جانے کب وہ ایک بنگلے میں چوکیدار لگا تھا۔ وہ پوری زندگی ہی چوکیداری میں گزار کر اس دنیا سے گزر جاتا لیکن اندھا ہونے پر اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔ چوکیدار ٹائپ کے لوگوں سے بات کرنا عموماً ایسا ہی ہوتا ہے جیسے آپ خمیرے آٹے سے بات کررہے ہوں لیکن اس کی زبان خوب چلتی تھی۔ لیکن باتوں میں طعنہ، تشنیع، لوگوں کی عیب جوئی، چڑچڑے پن اور گالم گلوچ کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ نہ وہ کسی کو اچھا سمجھتا تھا نہ کوئی اسے۔ نوکری چھوٹنے کے بعد اپنے سابقہ مالکوں کو بات بے بات گالیاں دینا اس کا معمول تھا۔ چوکیداری کرنے کے علاوہ کوئی کام اسے آتا نہیں تھا اور اگر آتا بھی ہوتا تو اندھے پن کی وجہ سے ممکن نہیں تھا۔ جو کام اس کے لیے ممکن تھا وہ تھا بیوی بچوں کو دن رات گالیاں دینا اور مارنا پیٹنا۔ لیکن ایک اندھے اور بے روزگار شوہر سے بیوی کہاں تک پٹتی۔ ایک دن تن کر اس کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ اس دن کے بعد مارنے پیٹنے کا سلسلہ تو موقوف ہوگیا لیکن گالم گلوچ میں شدت آگئی۔ ایک دن گالم گلوچ بھی گھر والوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی۔ بڑا بیٹا چھری تان کر کھڑا ہوگیا ’’ابا اب اگر اماں کو گالیاں دیں تو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ مارنے پیٹنے اور گالیاں دینے کا تعلق کیا ختم ہوا بیوی بچوں سے اس کا ہر تعلق ختم ہوگیا۔
ان ہی دنوں علاء الدین کی موت واقع ہوچکی تھی لیکن وہ مرا نہیں تھا۔ موت سے پہلے سانس لیے چلے جانا اور زندگی گزارنا غیر فطری تو نہیں سوائے اس کے کہ اب اس کی زندگی میں دن نہیں تھے۔ اس کی زندگی رات ہی رات تھی۔ وہ منہ ہی منہ میں بڑ بڑاتا رہتا اور سونے کے اس چھلے کو انگلی میں گردش دیتا رہتا تھا جو اس کے غریب ماں باپ نے بڑی محبت سے اس کے لیے بنوایا تھا۔ وہ ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ بہت چہیتا۔ بھیانک غریبی میں بھی اس کے باپ نے بڑی مشقت سے پیسے جمع کرکے وہ چھلا اس کے لیے بنوایا تھا۔ ایک پیر صاحب نے بچے کی حفاظت کے لیے چھلا پہنانے کی تاکید تھی۔ چھلا بنوا کر اس کے باپ نے پیر صاحب کی خدمت میں پیش کیا تو وہ آدھ گھنٹے تک اس پر دم کرتے رہے پھر اپنے ہاتھ سے علاء الدین کی انگلی میں پہنایا۔ تب سے وہ چھلا علاء الدین کی انگلی میں تھا۔ یہ چھلا اس تنہائی میں اس کا ہمدرد، غمگسار اور دوست تھا۔ وہ چھلا انگلی میں گھماتا رہتا اور اس سے باتیں کرتا رہتا۔
کئی مہینے سے علاء الدین محسوس کر رہا تھا گھر میں نبیلہ کی آواز گونجنا کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ ایک دن اس نے نبیلہ کے کراہنے کی آواز سنی۔ آہٹوں سے پتا چلا کہ اس کا بڑا بیٹا اپنی ماں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جارہا ہے۔ پھر تو ڈاکٹر کے پاس جانا معمول بن گیا لیکن نبیلہ کے دردوں میں کمی نہیں آئی۔ درد کی وجہ پتے کی پتھری تھی۔ پورا پتا پتھریوں سے بھر گیا ہے۔ فوری آپریشن ضروری تھا ورنہ کسی بھی وقت پتا پھٹ کر زہر پورے جسم میں پھیل سکتا تھا۔ آپریشن میں بیس پچیس ہزار کا خرچہ تھا لیکن وہاں ہزار دوہزار بھی گھر میں نہیں تھے۔ آپریشن کیسے ہوتا۔ ایک دن نبیلہ درد سے نڈھال چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی کہ اس نے علاء الدین کے قدموں کی چاپ سنی۔ نفرت کا ایک تیز دھارا اس کے بدن میں یہاں سے وہاں تک پھیل گیا۔ تکلیف کے باوجود وہ تن کر بیٹھ گئی۔علاء الدین کی مغلظات کا جواب دینے کے لیے اس نے اپنے آپ کو تیار کرلیا تھا۔ اس نے طے کرلیا تھا کہ وہ آج اسے نہیں چھوڑے گی۔ اس خبیث انسان نے اس کی زندگی برباد کردی تھی۔ اس کا بس چلتا تو علاء الدین کی بوٹی بوٹی کرکے چیل کووں کو کھلا دیتی۔ لیکن آج نہ جانے کیا بات تھی کہ علاء الدین گالیاں نہیں بک رہا تھا۔ وہ چپ تھا بالکل چپ۔ وہ آہستگی سے نبیلہ کے قریب آیا۔ سونے کا چھلا انگلی سے اتا را اور نبیلہ کی گود میں ڈال کر واپس مڑگیا۔
علاء الدین کی موت کی خبر کی ہمارے لیے واحد اہمیت یہ تھی کہ وہ ہمارے بہنوئی ڈاکٹر ضیا کا بہنوئی تھا۔ جنازہ میں عدم شرکت سے بہن اور بہنوئی کے ناراض ہونے کا خدشہ تھا۔ بہن کے فون پر اطلاع دینے پر ہم نے بغیر کسی جذباتی وابستگی کے پوچھا: ’’جنازہ کب اٹھے گا‘‘ بہن نے جواب دیا ’’جنازہ تو اٹھ چکا۔ سخی حسن کے قبرستان میں تدفین ہے۔ آپ سیدھے قبرستان پہنچ جائیں۔‘‘ ہم نے مصنوعی غصے سے کہا ’’علاء الدین کی موت ہوگئی، جنازہ اٹھ گیا اور تم ہمیں اب اطلاع دے رہی ہو۔‘‘ بہن نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا ’’بھائی! صبح سے آپ کو فون کررہی ہو لیکن آپ کا فون بند تھا۔‘‘ ہمیں یاد آیا گھر سے نکلتے وقت ڈرائیونگ کے دوران ہم نے فون آف کردیا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے ایک فون کرنے کی ضرورت پیش آئی تب ہمیں احساس ہوا اور ہم نے فون آن کیا لیکن ہم نے غصہ جاری رکھا ’’فون تو ہمارا آن ہے اگر تمہیں یاد نہیں رہا تو ضیا فون کردیتے۔ بہرحال میں قبرستان پہنچ رہا ہوں۔‘‘ ہم قبرستان جانے کے لیے نکل ہی رہے تھے کہ ایک چھوٹا سا کام یاد آگیا۔ اس چھوٹے سے کام سے فارغ ہوئے۔ گھڑی میں وقت دیکھا تو ڈیڑھ دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ ہم نے جلدی سے بہنوئی کو فون کیا ’’ارے بھئی علاء الدین کی وفات ہوگئی تم نے اطلاع ہی نہیں دی۔ تھوڑی دیر پہلے اطلاع ملی پتا چلا کہ تم لوگ جنازہ لے کر نکل چکے ہو۔ میں فوراً نکلا لیکن یہاں ٹریفک جام میں پھنسا ہوا ہوں۔ کیا کروں۔ ایسا کرتا ہوں علاء الدین کے گھر پہنچتا ہوں‘‘ بہنوئی بولے’’میں سمجھا تمہاری بہن نے تمہیں اطلاع دے دی ہوگی۔ تمہارا غصہ بجا ہے۔ لیکن قبرستان جانا بیکار ہے۔ قبرستان سے آئے ہوئے بھی ہمیں ایک گھنٹے سے زیادہ ہوگیا۔ اب ہم نکل رہے ہیں۔ کل جمعہ ہے۔ سوئم کل ہی رکھ لیا ہے۔ تم ایسا کرو کل سوئم میں ہی آجانا۔‘‘
جمعہ کے روز ہم علاء الدین کے سوئم میں شرکت کے لیے جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ایک صاحب ملنے آگئے۔ ان کی باتوں میں عصر کا وقت ہوگیا۔ مغرب سے پہلے بہنوئی کا فون آگیا ’’تم سوئم میں آئے نہیں۔‘‘ ہم نے کہا ’’بھائی ضیا! کیا بتاؤ کل رات سے بخار نزلہ زکام میں گھرا ہوا ہوں۔ بہت کوشش کی لیکن بستر سے اٹھا نہیں جارہا ہے۔ بہنوئی بولے ’’آج کل وائرس چل رہا ہے۔ آدھا شہر اس میں مبتلا ہے۔‘‘ ہم نے کہا ’’تم ایسا کرو علاء الدین کے بڑے صاحبزادے کا نمبر send کردو۔ میں اس سے فون پر تعزیت کرلوں گا۔‘‘ تھوڑی دیر میں نمبر ہمارے موبائل پر آگیا۔ علاء الدین کے بیٹے سے تعزیت کرتے ہوئے ہماری آواز بھرا گئی۔ ہم نے اسے بہت عمدہ نصیحتیں کیں۔ اس پر واضح کیا کہ اب گھر کے بڑے تم ہی ہو۔ تمہیں والدہ اور چھوٹے بہن بھائیوں کا خیا ل رکھنا۔ نماز کی پابندی رکھنا اور دیکھو جھوٹ مت بولنا۔ (برائے ایس ایم ایس: 03343438802)