اصل مسئلہ مغرب کا مخمصہ ہے

358

جنیوا میں منعقدہ اجلاس میں عالمی ادارے یونیورسل پریوڈک رویو کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد امریکا نے ختم نبوت قانون اور سزاؤں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے تنسیخ کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ امریکی نمائندے جیز بریسٹن اسٹریسٹ نے کیا اورکہا پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ امریکا کا یہ مطالبہ نیا نہیں بلکہ وہ اس پر مسلسل ایک دباؤ قائم رکھے ہوئے اور اسی دباؤ کے ردعمل میں پاکستان میں وقتاً فوقتاًکئی تحریکیں چلتی رہی ہیں۔مغربی دنیا نے ہر دور میں اپنی ضرورت اور پسند وناپسند کے مطابق اسلام کو اپنے معانی پہنانے کے ساتھ ساتھ اپنے نام بھی دیے۔ جس اسکول آف تھاٹ سے مغربی تہذیب کی پنجہ آزمائی ہوئی اسے نشان زدہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک برا نام بھی دیا گیا۔ مصر میں اخوان المسلمون سے ناراض ہوئے تو اس پر بنیاد پرست اسلام کا لیبل لگا دیا گیا۔ افغانستان میں طالبان اور عرب دنیا میں ریڈیکل سوچ سے خطرہ ہوا تو اس پر وہابی اور ملی ٹینٹ اسلام کی پھبتی کسی گئی۔ ایران میں انقلاب سے خوف زدہ ہوئے تو شیعہ اسلام کے خطرے کی گھنٹیاں بجائی جانے لگیں۔ ان سب سے مختلف مقامات پر پنجہ آزمائی کرتے کرتے مغربی شہ دماغ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اب اچھا اور پرامن اسلام صرف صوفی اسلام ہے۔ جس میں تشدد کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے، کش مکش اور جدوجہد کے بجائے خانقاہی زندگی کا تصور غالب ہے۔ ان کے خیال میں ایک صوفی زمانے کے ہنگاموں سے دور اپنی ذات میں گم رشد وہدایت کی وادیوں کا مسافر ہوتا ہے۔ اسی تصور کے تحت افغانستان میں امریکا اور مغربی فوج اتحاد کو شکست ہوتی گئی تو عالمی سطح پر صوفی اسلام کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ ایک عالمی پروجیکٹ تھا اس لیے پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہی کی سرپرستی میں ایک صوفی کونسل بھی قائم ہوئی اور سرکاری سطح پر محافلِ سماع سجانے کا سلسلہ بھی فروغ پانے لگا۔ کہا جارہا تھا کہ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسلام کی صوفیانہ تعبیر وتشریح قیام امن میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ تقریباً وہی پالیسی تھی جو ایوب خان کے دور میں’’ غلام احمد پرویز کے اسلام کو آگے بڑھاؤ اور مولانا مودودی کے اسلام کو دباؤ‘‘ کی پالیسی اور ماٹو کا پرتو تھا۔ یہ اعتراف اسی کی دہائی میں اس دور کے ایک انٹیلی جنس افسر نے نوائے وقت میگزین کو دیے جانے والے اپنے انٹرویو میں کیاتھا ماضی قریب میں بھی سرکاری سطح پر صوفی اسلام کو فروغ دے کر معاشرے سے شدت اور انتہا پسندی ختم کرنے کی یہ کوششیں جاری تھیں کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کا واقعہ ہوا اور یوں صوفی اسلام اور سنی اسلام کو عالمی چھتر چھائے میں فروغ دینے کی پالیسی کو بریک لگ گئی۔ جب یہ معلوم ہوا کہ سلمان تاثیر کو قتل کرنے والا کسی دیو بندی مدرسے کا طالب نہیں بلکہ نعت خواں اور درود و سلام کی محفلوں میں وقت گزارنے اور ایک سنی عالم دین کے خطابات پر سر دھننے والا پنجاب پولیس کا جوان ممتاز قادری نام کاشخص ہے تو صوفی اسلام کو فروغ دینے کی باتیں کرنے والے انگشت بدنداں ہو کر رہ گئے۔
اس واقعے میں مغرب کے لیے ایک اہم سبق یہ تھا کہ اسلام حقیقت میں ایک ہے۔ جس کا ماخذ اور سرچشمہ ایک ہے۔ جس کے سوتے اسی منبع سے پھوٹتے ہیں۔ اس میں شدت بھی ایک حد تک ہے اورملائمت کی بھی ایک حد ہے۔ یہ حالات کے مطابق بریشم کی طرح نرم بھی ہوتاہے اور فولاد کی صورت میں بھی ڈھل جاتا ہے۔ جس کا تعلق اس کے سنی، شیعہ، بریلوی، دیو بندی سے نہیں بلکہ حالات سے ہوتا ہے۔ فرق صرف تشریحات کا ہے۔ اکثر اوقات اس میں شدت کا تعلق ردعمل سے ہوتا ہے۔ جب مغرب کسی سوچ کو دبانے اور اپنی سوچ کو مسلط کرنے کی حکمت عملی اپنانے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی حلقہ حساسیت کا مظاہرہ کرکے اس پر ردعمل دکھاتا ہے اور یوں اسے مستقل طور پر نشان زدہ کرنے کے لیے ایک مخصوص لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد صوفی اسلام کے فروغ کی کوششیں ہواؤں میں تحلیل ہو گئیں۔ ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت ہوگیا لاہور سے ایک سفید ریش عالم دین کی قیادت میں ایک کاررواں راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان میں فیض آباد کے مقام پر ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا ان کے مطالبات اور احتجاج کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہا مگر راولپنڈی اسلام آباد کے وسط فیض آبا د میں بیٹھے یہ لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور توجہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔
ملک بھر سے صوفی حضرات، مشائخ صاحبان اس دھرنے میں شرکت کرکے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں یہ وہی سوچ ہے جس کو بہت بے ضرر سمجھ کر صوفی اسلام کے نام سے فروغ دینے کی مہم سلمان تاثیر کے قتل کے بعد دم توڑ گئی تھی۔ دھرنے والوں کے قائد مرنے مارنے پر تلے بیٹھے ہیں اور ان کے پرجوش پیروکار ہاتھ لہرا کر لبیک یارسول اللہ کے نعرے بلند کررہے ہیں۔ ان دھرنے والوں کو سردی کا احساس ہے نہ بارش کا دھڑکا، کھانے پینے کی فکر ہے نہ بستر کی پروا اس طرح یہ ایک ’’چارجڈ‘‘ ہجوم ہے جو معمولی سی لغزش کے باعث تشدد کے راستے پر نکل سکتا ہے۔ ثابت یہ ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی گروہ شدت پسند نہیں ہوتا یہ حالات کا اثر ہوتا ہے جو انہیں ردعمل میں شدت کے راستوں پر گامزن کرتا ہے۔ دھرنے والوں کا خیال ہے انتخابی قوانین میں ترمیم کے نام پر ناموسِ رسالت کی شق پر ہاتھ کی صفائی بھول چوک یا سہو نہیں بلکہ ایک طویل عمل کی ابتدا اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھی۔ اگر یہ سہو تھا تو نظر انداز کرنے کے قابل بھی نہیں تھا اس لیے اس دانستہ یا نادانستہ غلطی کے مرتکب شخص کو عہدے سے مستعفی ہونا چاہیے۔دھرنے والوں کا پہلا مطالبہ وزیر قانون زاہد حامد کی برطرفی ہے جو ان کے مطابق انتخابی حلف نامے سے ختم نبوت شق کو ختم کرنے کا محرک تھے۔ دھرنے والے اسلام آباد اور راولپنڈی کے عوام کے لیے مشکلات پیدا کیے ہوئے ہیں۔ یہ سوال عمومی طور پر پوچھا جا رہا ہے اب جب کہ انتخابی حلف نامے میں ناموسِ رسالت سے متعلق نکات بحال کردیے گئے تو وہیل چیر والے مولانا کا پیروکارو ں کے ہمراہ دھرنا دینا اور آمدورفت کے لحاظ سے لاکھوں شہریوں کو مشکل میں مبتلا کرنے کاکیا جواز ہے؟ عین اس وقت امریکیوں نے ناموس رسالت کے قوانین کے خاتمے پر زور دے کر سار ا مخمصہ دور کرنے کے ساتھ ساتھ سارے سوالوں کا جواب دے دیاہے۔