برمی پناہ گزینوں میں دعوت و تبلیغ کی جائے

274

ہم سب جانتے ہیں کہ برمی مسلمان پناہ گزینوں کی حیثیت سے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں بنگلادیش میں کھلے میدانوں میں، جنگلوں اور پہاڑوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو کلمہ گو ہونے کی سزا دی گئی ہے کہ ہر قسم کی بھلائی سے محروم کردیے گئے ہیں۔ برما میں رہتے ہوئے بھی وہ دینی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے سے جبراً روکے جاتے تھے اور بہت سے خلاف دین اسلام قوانین ان پر مسلط کیے گئے تھے۔ ایسے حالات میں دین سے جڑنے اور بنیادی عقائد کی روح کو سمجھنے کے مواقعے ان لوگوں کو کم ہی نصیب ہوئے ہوں گے۔ اب جب کہ وہ جبر کے اُس ماحول سے نکل آئے ہیں تو ان میں رنج و صدمات اور خوف و ہراس کی کیفیت کو کم کرنے اور اللہ کی بندگی پر ان کے عقائد و تصورات کو پختہ کرنے کے لیے ان کے کیمپوں میں جا کر دعوت و تبلیغ کا کام کیا جانا چاہیے۔ اللہ کی یاد ہی مصائب اور دُکھوں کے عالم میں مرہم کا کام کرتی ہے اور دُکھے دلوں کو سکون اور حوصلہ بخشتی ہے۔ موت کے مناظر وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آئے ہیں لہٰذا عبرت، توبہ استغفار اور رجوع الی اللہ کی طرف ان کے دلوں کو راغب کرنے کا یہ موقع ہے۔ دینی و تبلیغی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس مقصد کے لیے اپنے وفود بنگلا دیش میں پناہ گزینوں کے کیمپوں کی طرف روانہ کریں، نہ صرف یہ کہ انہیں دینی تعلیمات سے جوڑا جائے بلکہ ان میں سے جو لوگ دین کا علم رکھتے ہیں انہیں بھی مزید تربیت دے کر دعوت و تبلیغ کے فریضے پر لگادیا جائے، لاکھوں پناہ گزینوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ان کی دینی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کیا جائے اور جو افراد بطور مبلغ و داعی دُنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی جا کر تبلیغ دین کا کام سرانجام دینے کے قابل ہوں ان کے وفود بھی بنگلا دیش اور ہندوستان وغیرہ میں بھیجے جائیں۔
مسز بینا حسین خالدی، صادق آباد