سیّد محمّد اشتیاق
پاکستان اسٹیل ایک قومی اثاثہ ہے۔ اس نوعیت کے عظیم الشان صنعتی منصوبے کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان اسٹیل وطن عزیز میں اپنی نوعیت کا واحد فولادی صنعت کا ادارہ ہے۔ اس جیسے عظیم صنعتی منصوبے کے پیچھے طویل منصوبہ بندی اور وطن عزیز کا مفاد پوشیدہ ہے۔ پاکستان اسٹیل سیکڑوں ایکڑ اراضی پر قائم ہے، ہزاروں ایکڑ زمین ذیلی صنعتی منصوبوں اور ملازمین کے رہائشی منصوبوں کے لیے مختص ہے۔ پاکستان اسٹیل کے پیداواری عمل کے آغاز سے لے کر موجودہ وقت تک کی تاریخ میں کئی نشیب و فراز آئے۔ لیکن ہر دفعہ اسٹیل مل، اپنے ملازمین کی انتھک محنت و وفاداری اور انتظامیہ کی مثبت و ٹھوس منصوبہ بندی سے ہر بحران سے نکل آئی۔
موجودہ بحران کا آغاز 2008ء سے ہوا، جو تاحال برقرار ہے۔ مالی سال 2007ء تا 2008ء پاکستان اسٹیل منافع پر منافع کے ریکارڈ قائم کررہی تھی اور ملازمین تنخواہوں، سہولتوں میں اضافے کے ساتھ چار چار بونس تک وصول کررہے تھے۔ یقیناًاس کامیابی کی پشت پر اہل قیادت و انتظامیہ اور ملازمین کی شبانہ روز محنت شامل حال تھی۔ پاکستان اسٹیل جب بحران کا شکار ہوئی تو اس بحران کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور ارباب اختیار کا یہ بیانیہ منظر عام پر آیا کہ پاکستان اسٹیل کے بحران کی وجہ عالمی کساد بازاری ہے۔ بحران سے نمٹنے کے دعوے بھی کیے گئے اور منصوبے بھی بنائے گئے لیکن سارے دعوے اور منصوبے، زبانی و عبوری ثابت ہوئے۔ بحران سے نمٹنے کے لیے، اگر ماضی کی طرح مثبت و ٹھوس منصوبہ بندی اور حکمت عمل اپنائی جاتی تو پاکستان اسٹیل، اس بحرانی کیفیت سے کب کی نکل آئی ہوتی۔
رواں ماہ کے عشرہ اول میں پاکستان اسٹیل جوائنٹ ایمپلائز ایکشن کمیٹی نے، مل کی بحالی کے لیے ٹرین مارچ اور اسلام آباد پریس کلب کے سامنے تین روزہ کامیاب علامتی بھوک ہڑتال کی۔ علامتی بھوک ہڑتال سے قبل مزدور رہنماؤں نے چیدہ چیدہ وزراء اور بااثر ارکان قومی اسمبلی سے بھی ملاقات کی اور ٹرین مارچ اور علامتی بھوک ہڑتال کے مقصد سے آگاہ کیا اور علامتی بھوک ہڑتال میں شرکت کی دعوت دی۔ بھوک ہڑتالی کیمپ میں قائد حزب اختلاف سمیت تمام سرکردہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی اور جہاں اپنے تعاون کی یقین دہانی کروائی، وہیں حکومت وقت پر بھی زور دیا کہ وہ جلد ازجلد پاکستان اسٹیل اور اس کے ملازمین کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔ بھوک ہڑتال کے آخری دن وفاقی وزیر نج کاری، دانیال عزیز بھی ہڑتالی کیمپ میں تشریف لائے اور حکومت کی طرف سے پاکستان اسٹیل اور اس کے ملازمین کے مسائل کو جلد حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
جب سے اسٹیل مل بحرانی کیفیت کا شکار ہے، اس وقت سے لے کر اب تک لاتعداد دفعہ وفاقی حکومتوں اور متعلقہ وزیروں کی طرف سے اس بات کی یقین دہانی کروائی جاچکی ہے کہ حکومت اسٹیل مل کے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھتی ہے اور جلد ہی اس کا کوئی قابل عمل حل ڈھونڈ لیا جائے گا، لیکن حل اب تک نہ ڈھونڈا جا سکا ہے۔ اسٹیل مل اور اس کے ملازمین کے معاشی مسائل اور حالات دن بدن بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ اس لیے، اس تحریر کے ذریعے حکومت وقت کی خدمت میں چند تجاویز اور گزارشات پیش کی جارہی ہیں ، جو جوائنٹ ایمپلائز ایکشن کمیٹی کی تجاویز اور گزارشات سے گہری مماثلت رکھتی ہیں۔ کسی بھی ادارے کو ہموار خطوط اور مستحکم بنیادوں پر چلانے کے لیے کل وقتی سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے حکومت کو اولین فرصت میں پاکستان اسٹیل کے لیے اہل و قابل کل وقتی سربراہ مقرر کرنا چاہیے اور بورڈ آف ڈائرکٹرز کی از سر نو تشکیل کرنی چاہیے۔ پاکستان اسٹیل کی تعمیر و ترقی میں روس کا اہم کردار ہے، اب جب کے پلانٹ کے بیش تر حصے اپنی عمر مکمل کرچکے ہیں، ان کی بحالی کے لیے اسٹیل کی صنعت کے تجربے کے حامل ممالک سے حکومتی سطح پر شراکت کا معاہدہ کرنا بھی، پاکستان اسٹیل کی بحالی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ میرٹ کی بنیاد پر افسران کا تقرر کیا جائے اور تجربہ کار و اچھی شہرت کے حامل ریٹائرڈ ملازمین کی خدمات کنٹریکٹ پر حاصل کی جائیں۔ پاکستان اسٹیل جو نیشنل بینک اور سوئی ناردرن کے قرضوں کے بو ج تلے دبی ہوئی ہے، ان قرضوں کو طویل مدتی قرضوں میں تبدیل کیا جائے اور منافع یا سرچارج کی رقم کو کم کیا جائے۔ پاکستان اسٹیل مل کی بحالی کے لیے پانچ سالہ منصوبہ بنایاجائے۔ مل کی بحالی و توسیع کے لیے ذیلی منصوبوں کے لیے مختص صنعتی زمین کو پہلے سے قائم ذیلی منصوبوں این۔ آئی۔ پی اور خصوصی اقتصادی زون کو لیز پر دیا جائے اور ان افراد کا بھی احتساب کیا جائے، جن کی وجہ سے پاکستان اسٹیل بحران کا شکار ہوئی۔ قوی امید ہے کہ اگر حکومت وقت نے ان تجاویز اور گزارشات پر عمل کیا تو اسٹیل مل کی بحالی اور توسیع کا عمل بخوبی انجام کو پہنچے گا۔