حکومت آپا

298

انجینئر ایم رفیع

حکومت بیگم ایک پرانے روایتی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، ان کے تین چھوٹے بھائی صدر الاسلام، منصف الاسلام اور ریاست الاسلام تھے۔ چوں کہ حکومت بیگم، بھائیوں سے بڑی تھیں، اس لیے حکومت آپا کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ حکومت آپا اپنی شادی کے چند مہینے بعد ہی اپنے میکے آبیٹھی تھیں اور کچھ عرصے بعد اُن کے شوہر نے طلاق دے دی۔ یوں میکہ جس میں اُن کے تینوں بھائی مقیم تھے اُن کا مستقل ٹھکانہ بن گیا، ایک ایک کر کے تینوں بھائیوں کی شادیاں حکومت آپا ہی کے ہاتھوں انجام پائیں کیوں کہ حکومت آپا کی شادی سے پہلے ہی اُن کے ماں باپ فوت ہو چکے تھے۔ بھائیوں اور اُن کے خاندانوں پر حکومت آپا نے اپنی گرفت کافی مضبوط کر رکھی تھی، اُن کی مرضی کے بغیر اس گھر میں پتا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ بھائیوں کی بیگمات نے پَر نکالنے شروع کیے تو حکومت آپا نے بھانپ لیا کہ اب مشکل وقت آرہا ہے، یوں سب سے پہلے انہوں نے اپنے بھائی صدر الاسلام کو اپنا ہم نوا بنایا، یہ بے چارے سیدھے سادھے اور طابع دار قسم کی شخصیت کے مالک تھے۔ یوں صدر الاسلام جو اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے حکومت آپا کے زیر اثر آگئے اور حکومت آپا کی گھر پر ٹوٹتی گرفت کو کسی حد تک سہارا مل گیا۔
منجھلے بھائی منصف الاسلام خاموش طبع مگر گھر کے ہر معاملے پر گہری نظر رکھنے والے تھے، یہ اگرچہ گھر کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تھے مگر جب بھی کوئی معاملہ بگاڑ کی طرف جاتے ہوئے دیکھتے تو اپنے دوسرے بھائیوں کی مشاورت اور معاونت سے معاملے کو سنبھال لیتے جو حکومت آپا کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ حکومت آپا تو صرف اپنی حکمرانی چاہتی تھیں چاہے اُس کا نتیجہ کچھ بھی ہو۔ چھوٹے بھائی ریاست الاسلام باقی بھائیوں کی نسبت نہ صرف جسمانی طور پر چاق و چوبند اور طاقت ور تھے بلکہ گھریلو معاملات میں گاہے گاہے مداخلت بھی اپنا فرض سمجھتے تھے، اسی لیے اکثر حکومت آپا سے ان کی مد بھیڑ بھی ہو جاتی تھی، لیکن دوسرے بھائی معاملے کو رفع دفع کر وادیا کر تے تھے۔
کہتے ہیں کہ کسی ملک کے امور چلانے میں تین شخصیات کاکردار اہم ہو تا ہے، ایک حاکم، دوسرا قاضی اور تیسرا سپہ سالار، یہ تکون یا ٹرائیکا جتنا مضبوط ہوتا ہے، ملک بھی اتنا ہی مضبوط ہو تا ہے۔ حاکم، قاضی اور سپہ سالار اگر اپنی اپنی ذمے داریاں اور فرائض دیانت داری سے ادا کریں اور ان میں آپس میں بھی ربط رہے تو نہ صرف امور مملکت احسن طریقے سے چلتے ہیں بلکہ نتیجتاً ملک ترقی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح حکومت آپا کا گھرانہ بھی تر تیب پا چکا تھا جہاں حکومت آپا، خود حاکم کا کردار نبھا رہی تھیں تو بھائی منصف، قاضی کے روپ میں گھر کی اچھے برے معاملات کا تصفیہ کروایا کرتے تھے اور بھائی ریاست نے سپہ سالار کی طرح ہر ایک پر نظر رکھی ہوئی تھی اور جہاں بھی کوئی گڑ بڑ محسوس کی تو خود میدان میں کود پڑے۔ بڑے بھائی، صدر الاسلام کی حیثیت بالکل ایسی تھی جیسی ایک جمہوری ملک میں آئینی صدر کی ہوتی ہے، یہ بے چارے گھر کے ٹرائیکا سے باہر ہی تھے۔
تینوں بھائی اپنے باپ کے چھوڑے ہوئے کاروبار سے منسلک تھے اور اپنے کاروباری معاملات باہمی مشاورت سے چلایا کرتے تھے لیکن چھٹی کے دن جب سب لوگ دن میں گھر پر ایک ساتھ جمع ہوتے تو حکومت آپا اُن کے کاروباری معاملات میں بھی مداخلت کرنے سے باز نہ آتیں۔ بھائی ریاست تو ان کی اس مداخلت پر فوراً بگڑ جاتے مگر دوسرے بھائی، حکومت آپا سے نرمی سے بات کر کے سمجھایا کرتے کہ وہ کاروباری معاملے میں مت الجھا کریں، ہم نے گھر کے ساری حکمرانی تو آپ کو سونپ رکھی ہے اور ہر چیز آپ کی مرضی کے مطابق ہی ہوتی ہے تو دوسرے معاملے میں پوچھ گچھ کی کیا ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کی عادت تو چھڑائی جاسکتی ہے لیکن خصلت کو نہیں بدلا جاسکتا، یہی معاملہ حکومت آپا کے ساتھ بھی تھا اور وہ اپنی خصلت کے ہاتھوں مجبور تھیں۔ ان معاملات کو تو بھائی جیسے تیسے برداشت کرتے رہے مگر جب حکومت آپا نے اپنے پڑوس میں رہنے والے اُس خا ندان سے مراسم بڑھائے جو اُن کے بھائیوں کی نظر میں اُن کا دشمن تھا تو حکومت آپا اور اُن کے دو بھائیوں میں ٹھن گئی۔ یوں گھر کے ماحول میں کشیدگی بڑھنے لگی، بھائی صدر الاسلام کے علاوہ گھر کے تمام لوگوں نے حکومت آپا سے اپنے تعلقات محدود کر لیے مگر حکومت آپا پھر بھی باز نہ آئیں۔ پھر ریاست بھائی کے کانوں تک یہ بات بھی پہنچی کہ حکومت آپا گھر سے قیمتی سامان اور رقم کہیں اور منتقل کر رہی ہیں اور اس ہوشیاری سے یہ کام کیا جارہا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہو پارہی ہے۔
حکومت آپا کی حرکتوں پر اُن کے بھائی ریاست کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھے اور گاہے گاہے منجھلے بھائی منصف کو معاملات سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ بھائی منصف نے بھی اشاروں کنائیوں میں حکومت آپا کو خبردار کرنے کی کوشش کی مگر وہ تو اپنے آپ کو عقل کُل سمجھ بیٹھی تھیں اور بھائیوں کی وارننگ کو نظر انداز کر کے ہر وہ کام ببانگ دہل کرنے لگیں جو اُن کے بھائیوں کو ناپسند ہوتا۔ جب پانی سر سے گزرنے لگا تو اس گھرانے کا ٹرائیکا اپنی افادیت کھونے لگا، یوں بھائی ریاست نے براہ راست حکومت آپا کو سبق سکھانے کے بجائے اپنے بھائی منصف کا سہارا لیا۔ پھر ایک روز جب حکومت آپا کسی سے ٹیلی فون پر بات کر رہی تھیں تو بھائی ریاست نے چھپ کر سن لیا کہ وہ کسی سے زیورات کی قیمت کا بھاؤ تاؤ کر رہی ہیں، بس پھر کیا تھا گھر میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ رات کو سارے لوگ ایک کمرے میں جمع ہوئے اور حکومت آپا سے تند و تیز سوالات کیے گئے جس کا وہ کوئی بھی معقول جواب نہ دے سکیں۔ پھر تمام بھائیوں نے معاملہ بھائی منصف کے سپرد کر دیا کہ وہ اپنے تئیں چھان بین کریں اور اصل حقیت سامنے لائیں، بھائی منصف نے چھان بین شروع کی تو حکومت آپا قصور وار نکلیں اور یوں فیصلہ ہوا کہ اب حکومت آپا کا اس گھر میں رہنا ٹھیک نہیں۔ حکومت آپا اپنی حرکتوں کی وجہ سے گھر سے نکال دی گئیں اور اب ہر ایک سے یہ ہی کہتی نظر آتی ہیں کہ مجھے تو سمجھ نہیں آیا کہ مجھے کیوں نکالا! اتنا سب ہو جانے کے باوجود حکومت آپا کو یقین ہے کہ وہ ایک دن پھر اسی گھر کی حکمران ہوں گی اور اپنے بھائیوں کو ایسا سبق سکھائیں گی کہ وہ یاد رکھیں گے۔