ایک شام ’’کرب‘‘ سے ’آگہی‘ کے نام

491

معروف قلم کار آسیہ بنت عبداللہ صدیقی کے اعزاز میں منعقدہ تقریب پذیرائی کی روداد

فرحی نعیم

یہ ذکر ہے بدلتے موسموں کی اس البیلی سہ پہر کا جس میں ہماری ایک بہت ہی سینئر اور تجربہ کار قلمکار کے اعزاز میں ان کی دوسری کتاب کی تقریب پذیرائی منعقد کی گئی۔ جمعتہ المبارک کے بابرکت دن مقامی ہال میں ایک سادہ اور پروقار تقریب کا انعقاد، میزبانوں کی سادگی، تصنع اور تکلف سے پاک انداز کا مظہر تھی۔
جی یہ انعقاد ہے محترمہ آسیہ بنت عبداللہ صدیقی کے افسانوں کے مجموعے ’’کرب آگہی‘‘ کی تقریب رونمائی اور پذیرائی کا جس کو 06منظر عام پر لانے میں محترمہ فرحت طاہر صاحبہ کی انتھک کاوشوں کا دخل ہے۔
آسیہ آپا سے میرے تعلق کی ابتداء آج سے چند سال قبل ہمارے زون میں ہونے والی ادبی نشست میں ہوئی تھی اور اس کے بعد جب میں نے اپنے گھر میں حریم ادب کی نشست کا آغاز کیا تو غزالہ عزیز کے ساتھ آسیہ آپا اپنے ساتھ ڈھیروں تجربہ کار باتیں اور اخلاص لے کر آئیں اور حاضرین محفل کے قلب و ذہن کو اپنی باتوں سے منور کرتیں۔ غزالہ عزیز کے ساتھ آپا کی آمد اس تعلق کو آہستہ آہستہ مضبوط کرنے لگی اور پھر اس تعلق میں محبت و خلوص کی چاشنی اپنا رس گھولنے لگی۔ پھر اسی محبت و خلوص سے جب آپا نے اپنی کتاب کی تقریب کے انعقاد کی خوشخبری سناکر ہمیں اس میں آنے کی پیار بھری دعوت دی تو ہم نے فوراً ہی اثبات میں سر ہلاکر آنے کی حامی بھرلی۔
غزالہ عزیز اور ڈاکٹر عزیزہ کے ساتھ ایک دلچسپ سفر طے کرکے جب ہم مقررہ وقت پر مقررہ مقام پر پہنچے تو مہمانوں کی آمد شروع ہوچکی تھی۔ مقام کے سلسلے میں بھی ایک مزے دار قصہ سنیے۔ تقریب جس ہال میں ہونی تھی بعد میں چند وجوہات کی بنا پر اس ہال کے بجائے دوسرے ہال میں منعقد کی گئی۔ جس کی اطلاع حاضرین کو چند دن پہلے دیدی گئی تھی۔ اب راستے میں ڈاکٹر عزیزہ اسی پہلے والے ہال کو تلاش کررہی ہیں۔ لیکن چونکہ ہماری ذہن نے فوری کام کیا تو انہیں بروقت اطلاع دی کہ مقام اب تبدیل ہوچکا ہے لہٰذا تقریب فلاں ہال میں نہیں بلکہ فلاں میں ہے۔ اب ہم جس ہال کا نام لے رہے وہ نہ جانے ہمارے ذہن کے کس کونے میں موجود تھا جو زبان پر نہیں آرہا تھا۔ لیکن صد شکر کہ بروقت ہم نے موبائل نکال کر وہ میسج پڑھا جو بہن فرحت طاہر نے ہم جیسوں کی رہنمائی کے لیے کیا ہوا تھا۔ اب جو دیکھا تو اس میں ایک بالکل ہی الگ نام لکھا تھا۔ ہم نے جلدی سے اس مقام کا نام باآواز بلند پڑھا اور یوں ہنستے مسکراتے ہم مقررہ مقام پر باآسانی پہنچ گئے۔
سفید اجلے اور پاکیزہ لباس پہنے اور سلیقے سے دوپٹہ سر پر جمائے آسیہ آپا آنے والوں کا استقبال ان سے گلے مل کر کررہی تھیں۔ آپا کے گھر والے ان کی بیٹیاں، بہوویں، ان کے رشتہ دار خواتین، ان کی درس و تدریس کی ساتھی خواتین، سب کشاں کشاں ان کی دعوت پر آگئی تھیں۔ آپا کی دونوں بیٹیاں اپنی والدہ کی اس درجہ تکریم پہ مسرور تھیں تو بہوویں بھی ساس کی اس عزت افزائی پر مسرت کا اظہار کررہی تھیں۔ ہال میں سلیقہ سے دورویہ کرسیاں جمی ہوئی تھیں۔ سامنے اسٹیج پر آسیہ بنت عبداللہ کی کتاب سے متعلق ایک بڑا بینر آویزاں تھا۔ سرخ اور سبز رنگ کے امتزاج سے سجا بینر اور اسٹیج پر سجے صوفے جس پر مہمان خصوصی محترمہ افشاں نوید اور ان کے ساتھ مہمانان گرامی محترمہ غزالہ عزیز جو مشہور کالمسٹ اور افسانہ نگار کے ساتھ حریم ادب کی جنرل سیکریٹری بھی ہیں ان کے ساتھ ڈاکٹر عزیزہ انجم جو شاعر کے ساتھ افسانہ نگاری بھی کرتی ہیں۔ اور ان کے ساتھ ہماری اپنی محترمہ فرحت طاہرہ صاحبہ تھیں۔ نظامت کے فرائض فرحت طاہر نے احسن طریقے سے انجام دیے۔
تقریب کا آغاز سورۃ فاتحہ کی تلاوت سے کیا اور اس کے بعد انہوں نے کتاب کے مختلف مراحل سے گزرنے کی رو داد بیان کی، کوئی بھی کتاب اپنے ابتدائی مراحل سے چھپنے تک کے کتنے مشکل اور صبر آزما مراحل سے گزر کر قاری کے ہاتھ میں آتی ہے۔ اس کتاب میں آپا نے اپنے ارد گرد بکھری کہانیوں کو افسانہ کے پیرائے میں ڈھال کر ہم تک پہنچایا ہے۔ پھر اتنی محنت اور لگن کے بعد تو یہ کتاب اور اس کے مصنف کا حق ہے کہ اس کی پذیرائی کی جائے۔ ابتدائی جملوں کے بعد فرحت باجی نے محترمہ ڈاکٹر عزیزہ انجم کو دعوت دی کہ وہ اس کتاب پر اظہار خیال کریں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بڑی خوبصورتی سے اس پر تبصرہ کیا انہوں نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میرا اور مصنفہ کا ساتھ بہت پرانا ہے۔ کاغذ اور قلم کے ساتھ ہماری عمروں کا بھی ایک بڑا حصہ گزر گیا۔ آپا کا پہلا ناول ’’دل شکن‘‘ آیا اور ہاتھوں ہاتھ لیاگیا۔ اس مجموعے میں بھی کہانیوں کے کردار عام اور متوسط طبقہ کے لوگ ہیں۔ زندہ اور بولتے ہوئے، سادہ، برجستہ اور لطیف جملے قاری کا دل موہ لیتے ہیں۔
ان کی کہانیوں میں نچلی سطح کا رومانس نظر نہیں آتا۔ مایوسی میں گھری عورت تو موجود ہے لیکن اسے ان مسائل سے نکلنا بھی آتا ہے۔ مصنفہ کی کہانی عموماً بامعنی پیغام پر ختم ہوتی ہے۔ انہوں نے قلم کو امانت سمجھتے ہوئے معاشرے کی نا انصافیوں کی بات تو کی لیکن ساتھ ہی نرم لہجے میں اس کا حل بھی ڈھونڈا۔ پھر ڈاکٹر صاحبہ نے ایک خوبصورت نظم سنائی کہ جس کا ہر مصرعہ کاغذ قلم سے عشق کرنے والوں کی بھرپور عکاسی کرتا۔ ’’جن کو گہنوں سے زیادہ قلم سے پیار ہے‘‘۔
فرحت باجی نے کہاکہ مصنفہ کی کہانیاں ہمیں پچھلی دہائیوں میں لے جاتی ہیں۔ جوں جوں آپا کہانیاں سپرد قلم کرتی رہیں وہ چھپتی گئیں اب ضرورت تھی کہ ان کہانیوں کو محفوظ کرکے ایک کتابی شکل دے دی جائے۔ اور یوں بڑی محنت کے بعد ایک خوبصورت کتاب منظر عام پر آئی۔ فرحت طاہر وقفہ وقفہ سے کتاب کے متعلق دلچسپ باتیں اور اس کے منظر عام پر آنے تک کے مراحل کو اپنے شرکاء سے شیئر کررہی تھیں اور ساتھ ہی معزز مہمانان گرامی کو اظہار خیال کی دعوت بھی دیتی جارہی تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے بعد جسارت اخبار کے خواتین صفحہ کی انچارج محترمہ غزالہ عزیز کو دعوت دی گئی۔ غزالہ باجی نے اس موقع پر اور محفل کو خاص قرار دیتے ہوئے کہا کہ مثبت الفاظ نور کے میناروں کے مانند ہوتے ہیں جو اپنی روشنی سے چہار عالم کو منور کردیتے ہیں۔ اور آسیہ آپا کے الفاظ بھی نور کے مینار ہیں۔ پڑھنے والے اور لکھنے والے کا تعلق بڑا گہرا ہوتا ہے۔ لکھنے والے کے ہاتھ میں قلم ہوتا ہے جس سے وہ اپنے خیالات اور سوچ کو کاغذ پر بکھیر دیتا ہے جبکہ پڑھنے والے کو ہاتھ میں جب کتاب آئی ہے تو اس میں کبھی کبھی تو کئی زمانوں کا فرق بھی آجاتا ہے لیکن زمانوں کا فرق بھی قاری اور مصنف کے رشتے کو کمزور نہیں کرتا۔
فرحت طاہر نے غزالہ عزیز عزیز کے تبصرے کے بعد ایک دفعہ پھر کتاب کے نام پر اور اس کی معنویت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ درد تو پھر بھی نظر آجاتا ہے لیکن کرب نظر نہیں آتا یہ اندر ہی اندر سلگتا ہے۔ غزالہ عزیز کے بعد انہوں نے نامور مصنفہ جو کہ بیک وقت کئی رسائل میں اپنے قلم کے جوہر دکھاتی ہیں اور جسارت میگزین میں ہر ہفتے ’’نوید فکر‘‘ کے عنوان سے کرنٹ افیرز پر لکھتی ہیں۔ محترمہ افشاں نوید کو کتاب پر تبصرہ کی دعوت دی۔ محترمہ افشاں نوید نے اپنے نرم لہجے میں آنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی آمد عکاس ہے کہ آپ علم و ادب سے محبت کرنے والے ہیں آپ نے یہ شام ایک ’کرب‘ کے نام کی ہے۔ یہ بڑا قیمتی کرب ہے آپ درد سے نجات کے لیے تو درد کش دوا لے سکتے ہیں لیکن کرب کے لیے نہیں یہ درد و کرب انسان کا دنیا میں آنے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے لیکن اس کے بھی دائرے ہوتے ہیں کچھ لوگ بہت چھوٹے دائروں میں سفر کرتے گزر جاتے ہیں۔ زندگی تو نام ہی درد کرب کا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے کرب کو معاشرے کے دائرے تک بڑھایا اور اسے اکھٹا کرکے دیوان تک بنادیا۔ آسیہ آپا نے بھی معاشرے کی نا ہمواریوں کو محسوس کیا اور اپنے قلم کے ذریعے اپنے اندر کے اس کرب کو چار دیواری سے نکال کر آگے نسلوں تک پہنچانے کی بھاری ذمہ داری نبھائی، آج یہ ہمارا اثاثہ ہے۔ یہ کتاب جتنے ہاتھوں میں جائے گی روشنی پھیلائے گی اور درد و کرب منتقل کرے گی۔ انہوں نے اطراف کے مسائل کو سادگی سے لکھا چونکہ دل سے لکھتی ہیں اسی لیے دل پر اثر کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ فرحت نے بھی اس ’کرب‘ کو سمجھتے ہوئے اس کرب کو محفوظ کرکے سرمایہ بنادیا۔ محترمہ عقیلہ اظہر اور محترمہ عابدہ عبداسلام کو بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن وہ اپنی کچھ نجی مصروفیات کی وجہ سے شرکت نہ کرسکیں۔ محترمہ صفیہ سلطانہ کو بھی دعوت دی گئی تھی ان کی بھی کچھ ذاتی مصروفیت تھی لیکن انہوں نے کتاب پر اپنا سیر حاصل تبصرہ بھجوا دیا تھا جسے آپا کی صاحبزادی طیبہ نے شرکاء کے سامنے پڑھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے ایک افسانے نے مجھے سحر زدہ کردیا تھا۔ یہ افسانہ نہ صرف فنی لحاظ سے اعلیٰ تھا بلکہ مصنفہ کی موضوع پر بھی مکمل گرفت تھی۔ میں نے ان کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ آسیہ آپا اپنی تحریروں سے معاشرے کی نا انصافیوں سے گویا جنگ لڑ رہی ہیں میری بڑی خواہش ہے کہ میں بھی ان جیسا لکھ سکوں۔ ان کی بچوں اور بڑوں کی تحریریں اور ناول نے حق ادا کردیا۔ جو ایمان و اخلاق ان کی تحریر سے جھلکتا ہے وہی ان کے برتائو میں بھی ہے۔ یہ اسلامی ادب پر توانا قافلے کی رہنما ہیں۔ محترمہ نے انہیں شاہین صفت شخصیت قرار دیا۔
اس کے بعد آسیہ بنت عبداللہ کی بہو اور بیٹیوں کو بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی جس میں انہوں نے ان کی خلوص و محبت، انکساری اور ممتا کے جذبے سے گندھی شخصیت پر روشنی ڈالی اور ان کو اپنے لیے ایک قیمتی سرمائے سے مشابہت دی اور دعا کی کہ خدا انہیں ہمارے سروں پر سلامت رکھے اور ہم ان کا صدقہ جاریہ بن جائیںِ آخر میں آپا کو اسٹیج پر بلایاگیا آپا اپنے انکسار، عاجزی اور سادگی سے یوں گویا ہوئیں کہ میری بہنوں نے اتنا کچھ کہا کہ اب میرے کہنے کوکوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ ان کی محبتیں اور چاہتیں ہر دم میرے ساتھ ہیں اور یہ انہی کی محبتوں کا نتیجہ ہے کہ میری کتاب منظر عام پر آئی۔ خوشی چونکہ دیر سے ملتی ہے اور جلدی ختم ہوجاتی ہے جب کہ دکھ جلدی ملتے ہیں اور تادیر قائم رہتے ہیں اور یہی دکھ ہیں جو میں صفحہ پر بکھیر دیتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں میرا لکھا ایک جملہ، ایک نقطہ میرے لیے اگر باعث بخشش بن جائے اور میرا اللہ اسے قبول کرے تو یہی میرے لیے کافی ہے۔ میری ساری زندگی کی محنت کا صلہ مجھے مل جائے گا۔ میں قلم کی مزدور ہوں اور میرا اللہ بڑا قدر دان ہے وہی اس کی اجرت دے گا۔ انہوں نے اپنی ساتھی قلمکار بہنوں اور خاص طور پر محترمہ فرحت طاہر کا شکریہ ادا کیا جن کی انتھک محنت کے نتیجے میں آج یہ خوبصورت کتاب ہمارے ہاتھوں میں آئی۔ آخر میں آسیہ بنت عبداللہ نے محبت اور انسانیت کے رشتے کو فوقیت دیتے ہوئے کہا کہ محبت سے زندگی آسان ہوجاتی ہے لہٰذا محبتوں کو پھیلائوں۔ آسیہ بنت عبداللہ کے پیغام کے ساتھ ہی ہال کے قمقمے روشن ہوچکے تھے یوں ایک پر مسرت شام اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی۔ افشاں نوید کی دعا کے ساتھ محفل برخاست ہوئی۔ میزبانوں کی طرف سے تواضع کا انتظام کیا ہوا تھا۔ یوں ہم آپا کی محبتوں کا قرض اٹھائے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔