پاکستان اور ایران دو قریبی پڑوسی اسلامی ممالک ہونے کے باوجود پچھلے کچھ عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور مستحکم تعلقات اور قریبی رابطوں سے محروم ہیں جو کبھی ماضی میں ان دونوں ممالک کا خاصہ رہے ہیں۔ ایران ویسے تو ایک مستحکم اور خوددار ملک ہے خاص کر اس نے انقلاب ایران کے بعد پچھلے 38 سال کے دوران مغربی طاقتوں کے تمام تر منفی ہتھکنڈوں کے باوجود جس بہادری اور استقامت سے دشمن کے عزائم ناکام بنائے ہیں اور دشمنوں کی خفیہ اور اعلانیہ سازشوں کا جس پامردی سے مقابلہ کیا ہے اس پر ایرانی قیادت اور قوم یقیناًخراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ماضی میں پاک ایران تعلقات مثالی ہونے کے علاوہ دونوں ممالک نے ہر آڑے وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار رکھے ہیں۔
یہ ایران ہی تھا جس نے 1947 میں سب سے پہلے پاکستان کی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت کی حمایت کی تھی۔ چین کے بعد پاکستان کے مغرب میں واقع ایران کی سرحد پاکستان کی دوسری سرحد ہے جو شروع دن سے نہ صرف ہر طرح کے خطرات سے محفوظ چلی آ رہی ہے بلکہ اس سرحد پر پاکستان کو کبھی بھی اپنی مسلح افواج رکھنے کی ضرورت لاحق نہیں ہوئی۔ 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں جب پاکستان اپنے اتحادی امریکا کے تعاون سے محروم رہاتو ان مشکل گھڑیوں میں بھی اگر کسی ملک نے تمام تر خطرات اور بیرونی دباؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی ہر ممکن مدد کی تھی تو وہ ایران تھا۔ 1979کے انقلاب ایران کے بعد گو ابتداء کے چند سال میں پاکستان کا افغان جہاد کے دوران امریکا کی جانب جھکاؤ اور اس کا اتحادی ہونے کی وجہ سے پاک ایران تعلقات سرد مہری کا شکار رہے لیکن بعد ازاں ایران عراق جنگ کے دوران پاکستان نے اسلامی اخوات اور بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جنگ کے خاتمے کے لیے جو کوششیں کیں اور اس جنگ میں ہونے والے مالی اور جانی نقصان پر جس دکھ کا اظہار کیا اس سے ایران کی انقلابی قیادت کو جلد ہی اندازہ ہوگیا تھاکہ پاکستان دو اسلامی ممالک کے درمیان جنگ کے خاتمے اور ثالثی کے لیے جو کردار ادا کر رہا ہے وہ اسلام کے مروجہ اصولوں کے عین مطابق ہے۔
ایران اور پاکستان کا عا لم اسلام کو درپیش چیلنجز پر ہمیشہ یکساں موقف رہا ہے۔ یاد رہے کہ فلسطین، کشمیر، بوسنیا اور افغانستان کے مسائل پر نہ صرف دونوں ممالک کے موقف میں یکسانیت پائی جاتی رہی ہے بلکہ ان مسائل کو ان خطوں کے عوام
کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل کرنے کے لیے اقدامات میں بھی دونوں ممالک نے ہمیشہ اگر ایک طرف ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون کیا ہے تو دوسری طرف اقوام متحدہ اور او آئی سی کے پلیٹ فارموں پر بھی یہ دونوں برادر ملک متذکرہ مسائل کو حل کرنے کی مشترکہ کوششیں کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ دنوں ایران کے دورے میں وہاں کی قیادت کے ساتھ دو طرفہ سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ عالم اسلام اور بالخصوص اس خطے کو درپیش مسائل کے ضمن میں باہمی تعاون اور مشترکہ موقف اپنانے کا جو اعادہ کیا ہے اسے سیاسی مبصرین خطے کے حالات کے ساتھ ساتھ پاک ایران تعلقات میں کچھ عرصے سے پیدا ہونے والی سرد مہری کے تناظر میں انتہائی اہمیت پر مبنی قرار دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اپنے دورہ ایران میں صدر حسن روحانی کے علاوہ وزیرخارجہ جواد ظریف اور وزیر دفاع امیر حاتمی اور ایرانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری کے ساتھ ملاقاتوں میں نہ صرف دو طرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے بلکہ پاک ایران بارڈر کو دوستی اور امن کی سرحد قرار دیتے ہوئے اس سرحد کو ہر قسم کی دراندازی اور ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف استعمال سے روکنے کے لیے جہاں بارڈر پٹرولنگ اور خفیہ معلومات کے تبادلے پر اتفاق کیا ہے وہاں ایرانی قیادت نے پاکستان کی جانب سے پاک افغان بارڈر پر دہشت گردی کی روک تھام اور پاک ایران بارڈر پر انسانی اور منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردوں کی آمد ورفت کی روک تھام میں پاک فوج کے کردار کونہ صرف سراہا ہے بلکہ اس ضمن میں پہلے سے موجود رابطوں اور تعلقات کو مذید مستحکم بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ اسی طرح ایرانی قیادت نے پاکستان کو گیس اور بجلی کے بحرانوں پر قابو پانے میں مدد کی فراہمی کے اعادے کے ذریعے بھی پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی اور قریبی تعلقات کا عملی اظہار کیا ہے۔ پاکستان اور ایران کے اس اعلیٰ سطحی رابطوں اور دونوں جانب سے گرم جوشی کے اظہار کے تناظر میں توقع کی جا سکتی ہے کہ عالم اسلام کے یہ دو اہم ترین پڑوسی ممالک اعتماد سازی کی دو طرفہ کوششوں کے ذریعے نہ صرف جنوب مغربی ایشیا میں امریکا اور بھارت کے اسلام دشمن گٹھ جوڑ پر مبنی سازشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں بلکہ آگے جا کر یہ دونوں ممالک مشرق وسطیٰ کے بحران کے خاتمے اور وہاں قیام امن نیز مغربی طاقتوں اور خاص کر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنتے ہوئے امت مسلمہ کے اتحاد اور اتفاق میں بھی قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔